تشدد ، انتشار اور سیاسی بے چینی کشمیر کے ماحول کا ایک مستقل حصہ بن گیا ہے۔ موجودہ غیر یقینی حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ نریندر مودی کی سربراہی والی BJP – RSS سرکار نہ صرف یہ کہ کشمیر کے سیاسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں سرے سے ناکام رہی ہے بلکہ وہ اس پیچیدہ معاملے کو سوچی سمجھی سازش کے تحت نظر انداز کر رہی ہے ۔ جہاں ایک طرف نریندر مودی نے 2014میں ووٹروں سے کئے گئے وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا ہے وہیں دوسری طرف کشمیر میں BJP کی پالیسی کا انحصار احتجاج اور مزاحمت کی ہر آواز کو شدید تشدد کے سہارے کچل دینے پر ہی رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کشمیریوں ، خاص طور پر نوجوانوں میں جو مزاحمت کی تحریک کے آگے آگے ہیں، بے گانگی اور بددلی کا احساس گہرا ہوتا گیا ،اس کے ساتھ ہی عوام میں غم و غصہ بڑھتا گیا اور احتجاج کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا ۔احتجاج کی وجوہات کی طرف دھیان دیئے بغیر اور ایک دانشمند انہ اپروچ اختیار کرنے کے بجائے سرکار نے ظالمانہ حد تک طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا۔
اگر ہم اس وقت دیکھیں تو مرکزی سرکار کو چھوڑ کر ملک کے تمام دیگر سیاسی اور سماجی حلقوں کو اس بات سے بے انتہا تشویش ہے کہ عوامی مزاحمت سے جُڑے تشدد کے نتیجے میں عام شہریوں کی جانیں تلف ہو رہی ہیں ۔ جولائی 2016 سے اب تک 100 سے زیادہ لوگوں کی جانیں جن میں بیشتر نوجوان تھے ،تلف ہوگئیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان زخمی ہوئے ہیں۔ سینکڑوں مظاہرین پیلٹ گن فائرنگ کی زد میں آکر اپنی ایک یا دونوں آنکھیں گنوا چکے ہیں۔ نریندر مودی کے سرکار نے کشمیری عوام کو سیاسی اور سماجی انصاف تو کیا اقتصادی بہتری کا موقع بھی فراہم نہیں کیا ۔ اس سرکار کی ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے عوامی اُمنگوں کو دبانے کے لئے جبر واستبداد کا استعمال۔اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال سے غافل مرکزی سرکار نے اپنی سیاسی نا اہلی کی بنا پر جو اقدام اُٹھائے اُنہوں نے ریاست کے سیاسی اور حفاظتی منظرنامے کو اتنا کشیدہ کر لیا کہ پارلیمنٹ کے ضمنی انتخابات کے لئے محض ایک لوک سبھا سیٹ کے لئے ضروری بندوبست کرنا بھی جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل مرحلہ بن گیا ہے۔حفاظتی عملے کے ہاتھوں حزب المجاہدین ملی ٹینٹ کمانڈر برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے رد عمل میں بڑے پیمانے پر وادی کشمیر میں نوجوانوں کا احتجاج دراصل مسئلہ کشمیر کو اَن دیکھا کرنے کی مودی سرکار کی کوتاہ اندیشی پر مبنی پالیسی کے خلاف دبے ہوئے غصے کا اظہار تھا۔ یہ احتجاج ریاست میں BJP-PDP کے موقعہ پر ستانہ اور اخلاقی طور ناجائز گٹھ جوڑ کے خلاف شدید ناراضگی کا برملا اظہار تھا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ جہاں PDP نے کشمیر وادی کے اندر ریاست کی خود مختاری بحال کرنے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے علاحدگی پسند وں اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات شروع کرنے کے نام پر عوام سے ووٹ مانگے، وہاں BJP نے جموں اور لداخ خطے میں اس بات کا ڈھنڈورہ پیٹا کہ بر سر اقتدار آتے ہی وہ ریاست کی رہی سہی اندرونی خود مختاری اور خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے ،نیز دفعہ 370کو آئین ہند سے خارج کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
دونوں سیاسی جماعتوں نے علاقہ پرستی اور بالواسطہ طور پر فرقہ پرستی کو ہوا دے کر ہی ووٹ حاصل کئے ۔ علاقہ پرستی کے معاملے کو اس حد تک اُچھالا گیا کہ وادی میں PDP کو اور جموں اور لداخ میں بیشتر اسمبلی سیٹیں BJP کو مل گئیں ۔ اس اخلاقی پستی اور عوام کو تقسیم کرنے کے بعد ان جماعتوں نے موقعہ پرستی اور سیاسی بے اصولی کی حد ود کو اُس وقت پار کرلیا جب انہوں نے محض اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے آپس میں گٹھ جوڑ قائم کیا اور نام نہاد ایجنڈا آف الائنس بھی ترتیب دیا ۔ اس ایجنڈا کے تحت کشمیر معاملے کو سُلجھانے کے لئے تمام متعلقین سے بات چیت کرنے نیز پاکستان کے ساتھ رُکی ہوئی بات چیت دوبارہ شروع کرنے اور صلح وسمجھوتے کا بھی عندیہ دیا گیا لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد BJP اور PDP میں حسب توقع رسہ کشی پیدا ہوئی ۔یہ رشتہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کا غیر منطقی ملاپ تھااور دونوں جماعتوں کے اعلان کردہ منشور کے درمیان کوئی بھی بات مشترکہ نہ تھی۔ کشمیر میں چونکہ PDP اپنے کسی سیاسی وعدے کو پورا نہ کرسکی بلکہ اُس نے BJP اور مرکزکے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ۔اس لئے کشمیر ی عوام کو اس بات کا شدید احساس ہوا کہ ان کے ساتھ دغا بازی ہوئی ہے۔ سخت نااُمیدی اور برہمی کے عالم میں وہ خاص طور سے نوجوان سڑکوں پر آئے اور فورسز کی تادیبی کارروائیوں کا جواب پتھر بازی سے دینے لگے۔ اس موقعہ پر اپنی غلطیوں کا احساس کئے بغیر ریاستی سرکار نے مرکزی رضا مندی سے عوام کی سمت ہاتھ بڑھانے کے بجائے طاقت کا غیر متوازن استعمال کیا۔ چنانچہ پتھروں کے خلاف لاٹھیاں آنسو گیس ، پیلٹ گن اور کئی موقعوں اور مقامات پر راست فائرنگ کا بھی استعمال کیاگیا۔ 100سے زیادہ شہری ہلاکتوں کے علاوہ سینکڑوں لوگوں کی روشنی متاثر ہونے ، ہزاروں نوجوانوں کے زخمی ہونے اور سینکڑوں مظاہرین کو بدنام زمانہ (PSA) قانون کے تحت جیل بھیجنے کا سلسلہ گذشتہ کئی مہینوں سے جاری ہے ۔ اس دوران 9 اپریل کو ایک فوجی افسر نے چلبراس بڈگام کے ایک شخص فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال کے طور پر ایک فوجی جیپ کے بینٹ کے ساتھ باندھ لیا اور کوئی 17گاؤں میں گاڑی کو گھمایا۔ یہ محض ایک ظالمانہ کارروائی کے بجائے مرکزی وزیر ارون جیٹلی اور بری فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت سے اس قابل مذمت کارروائی کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ میجر گگوئی کو جس نے یہ کارنامہ انجام دیا ،ایوارڑ سے بھی نوازا گیا۔ اس وقت بھی مرکزی حکومت بدستور کھوکھلی جملہ بازی میں مصروف ہے اور کشمیر سے متعلق سنگھ پریوار کے جارحانہ موقف کو عوام پر مسلط کرنے کی کوششیں کر رہی ہے ۔ اس میں کسی بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ مستقبل میں سرکار کی اس کوتاہ اندیشی اور ہٹ دھرمی کے تباہ کُن نتائج برآمد ہوں گے نیز اس کا خمیازہ پورے ملک بلکہ پورے خطے کو ُاٹھانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں BJP – RSS گٹھ جوڑ کے منصوبوں کی نشان دہی اُن بیانات سے ہوتی ہے جو BJPکے ایم پی سبھرامینم سوامی اور ویشو ِ ہند و پریشد کے پروین توگڑیا کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔ جہاں سوامی نے احتجاج کو ختم کرنے کے لئے کشمیریوں کو وادی سے بے دخل کرکے تامل ناڈو منتقل کرنے کی بات کی، وہیں توگڑیا نے فورسز پر ملی ٹینٹوں کے حملوں کو روکنے کے لئے کشمیر کے ایک ایک چپے پر بمباری کا سجھاؤ دیا۔ BJP کے صدر امت شا کا یہ بیان کہ کشمیر کا مسئلہ ساڑھے تین ضلعوں کا مسئلہ ہے اور یہ کہ حالات کو قابو میں صریحاً اشتعال انگیزی ہے،شاید یہ حکمت عملی اور وزیر داخلہ راج ناتھ کا یہ دعویٰ کہ سرکار نے کشمیر مسلے کا مستقل حل تلاش کرلیا ہے، اُس منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو 30 جون 2002 کو RSS کی مجلس عاملہ نے کورکشیتر ہریانہ میں اپنے ارکان کے سامنے رکھا تھا۔ یاد رہے اس تجویز میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر تین الگ الگ حصوں جموں ، کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا جائے اور ظاہر ہے یہ تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہی ہوگی۔ یہ بات بے چون و چرا کہی جاسکتی سے کہ ریاست کی یہ تقسیم نہ صرف جموں و کشمیر کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی بلکہ اس پورے خطے کے لئے قوموں کے درمیان نفرت کی مستقل حدیں مقرر ہو جائیں گی۔
BJP کے خیال میں عدم اختلاف کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کی آواز جبر و استبداد اور ڈھنڈورہ پیٹ کر کھوکھلی حُب الوطنی کی ہوا کھڑا کرکے اپوزیشن کا منہ بند کیا جائے۔ یہ وہی حب الوطنی ہے جس کا مظاہرہ1950 سے لے کر 1953تک جموں میں اُس وقت کی فرقہ پرست تنظیم جن سنگھ نے پرجاپریشد نام کی اپنی ذیلی تنظیم کے ذریعے اُچھالی تھی اور ایک ودھان ایک نشان اور ایک سمودھان کا نعرہ دے کر ریاست کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیاتھا ۔ کشمیر کے متعلق بھگوا پارٹی کا سیاسی منشور ، پرجا پریشد کے مطالبے سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے۔ کشمیر کے اندر موجودہ سیاسی بے چینی کو پاکستان کی مدد سے چلائی جانے والی’’ دہشت گردی‘‘ کا نتیجہ قرار دینا اور اُس پر طاقت کے بل پر قابو حاصل کرنے کی کوشش اب تک ناکام رہی ہے، اس طرز عمل سے نہ صرف ناامیدی اور بے گانگی میں کافی اضافہ ہوا ہے بلکہ علاحد گی کا رجحان مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے ۔ نئی دہلی کی طاقت آزمائی کی پالیسی نے انتہا پسندی کو مزید تقویت بخشی ہے ۔ اس موقع پر شاید یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ مرکزی حکومت کی نا عاقبت اندیش پالیسیوں اور طاقت کے بے جا استعمال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت جذباتی اور نفسیاتی سطح پر کشمیر کو کھونے کے قریب ہے۔
2014 ء کے پارلیمانی انتخابات میں کشمیری عوام نے بھر پور طور حصہ لیا اور بڑی تعداد میں ووٹ دالے گئے لیکن سری نگر لوک سبھا سیٹ پر اس کے برعکس حال ہی میں سری نگر لوک سبھا سیٹ کے لئے جب ووٹنگ ہوئی تو کل ملا کر محض 7 فی صد ووٹ ڈالے گئے ۔ یہ تعداد افسوس ناک بلکہ شرم ناک تھی ۔ غالباًاس سے پہلے کرائے گئے کسی بھی چناؤ میں اس سے کم ووٹ کشمیر میں نہیں پڑے تھے۔ سرینگر کے ساتھ ہی کشمیر کی دوسری لوک سبھا سیٹ اننت ناگ میں تو چناؤ ہی ملتوی کرنا پڑا کیونکہ پہلے مرحلے میں چناؤ کرانے کے خلاف اس قدر شدید مظاہرے ہوئے کہ 8 نوجوان مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ اگرچہ یہ صورت حال بر وقت سنجیدہ تجزیہ کا تقاضا کرتی ہے اور سوچ میں تبدیلی پیدا کرنے کی بھی تحریک دیتی ہے لیکن دلی سرکار کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ BJP – RSS اور خود نریندر مودی کی نگاہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات پر ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ان انتخابات کے دوران وہ کشمیر کے سوال کو فرقہ وارانہ گروہ بندی کے لئے استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹورنے کی کوشش کریں گے ۔ چونکہ اُترپردیش اسمبلی چناؤ میں فرقہ واریت اور نام نہاد سرجیکل سڑائک کو اُچھال کر RSS- BJP کو نمایا ں کامیابی حاصل ہوئی ،اُن کا خیال ہے کہ کشمیر میں احتجاج کی آواز کو دبانے ، علاحدہ گی پسندوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرنے اور پاکستان سے گفتگو کا راستہ ترک کرکے جنگی جنون پیدا کرنے سے اُنہیں انتخابات میں ریکارڑ توڑ جیت حاصل ہوگی۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیںکہ اُن کی جیت کو ہندو قوم پرستی کی بھی جیت سمجھا جائے گا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ RSS- BJP کی طرف سے ملک گیر سطح پر سیاست کو ہندوانہ رنگ میں رنگنے ، گائے کی حفاظت ، کے نام پر فرقہ پرستوں کی طرف سے ہلڑ بازی اور مسلم اقلیت پر حملوں کے کارن پہلے سے خراب حالات اور بھی کشیدہ ہوگئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ وزیر اعظم ہند کشمیر کے مسلے پر اپنی بے جا خاموشی کو توڑ دیں اور اعتماد سازی کی سمت میں مؤثر اقدام اُٹھائیں ۔ اس سمت میں جو پہلا قوم اُٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ مرکز عوامی سطح پر اس بات کو واضح طور پر تسلیم کرے کہ کشمیر کے مسلے کا حل ہتھیاروں سے نہیں بلکہ بامعنی اور قابل بھروسہ مذاکرات سے ہی نکالا جاسکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف اوقات پر دلی میں برسراقتدار حکومتوں نے کشمیر یوں سے کئی وعدے تو ضرور کئے مگر سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا۔ سابق وزیر اعظم مرحوم نرسما راؤ نے ۹۰ کی دہائی کے شروعات برسوں میں کہا تھا کہ اندرونی خود مختاری کے معاملے میں آسمان ہی حد فاصل ہے اور یہ کہ علاحدہ گی کو چھوڑ کر وہ کسی بھی مانگ پر کھلے دل سے بات چیت کے لئے تیار ہیں ۔ ایک اور سابق وزیر اعظم دیوی گوڈا نے مشورہ دیا تھا کہ ۱۹۹۶ کے اسمبلی چناؤ میں ریاست کی علاقائی پارٹیاں اندرونی خود مختاری کو اپنے منشور میں اولیت دے سکتے ہیں اور کامیابی کے بعد اس ایشو پر ریاست اور مرکزآپس میں بات چیت کرکے ایک قابل قبول حل نکال سکتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد جب ریاستی اسمبلی کی طرف سے خود مختاری کے حق میں ایک قرارداد منظور ہوئی اور اُس وقت ریاستی سرکار نے دلی سرکار کو جس کی سربراہی BJP کے لیڈر واجپائی جی کر رہے تھے تو اُس قرار داد کو دیکھے اور پڑھے بغیر ہی رد کر لیا گیا ۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ کشمیر مسئلے کے لئے ایک مخلصانہ اور سب کے لئے قابل قبول حل کی ضرورت ہے مگر کوئی تیار شدہ (out of box)حل موجودہ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی نظام کی حدود میں دستیاب نہیں ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ماضی میں کئی بار بھارت ۔پاک مذاکرات کے ساتھ ساتھ مرکز اور علاحدہ گی پسندوں کے مابین بھی بات چیت شروع ہوئی لیکن کوئی بھی ڈائیلاگ اختتام کو نہیں پہنچا اور میں ہی روک دئے گئے ۔ اس کے علاوہ مرکزی سرکار نے ورکنگ گروپ ، مذاکرات کار اور پارلیمانی کمیٹیاں کشمیر بھیجیں تاہم نہ تو ورکنگ گروپوں اور مذاکرات کاروں کی سفارشات پر غور کیا گیا ناہی پارلیمانی کمیٹیوں اور غیر سرکاری وفود کے مشوروں کو خاطر میں لایا گیا۔ مرکز کے اس رویہ سے نئی دلی کے انتظامیہ سے کشمیری عوام کا اعتماد یکسر ختم ہوا۔ اس کے ساتھ ہی مرکز نے حالات پر قابو پانے کے لئے بے تحاشہ طاقت استعمال کرنے کا جو پرانا اور فرسودہ حربہ استعمال کیا اُس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔ نتیجہ کے طور پر موجودہ پوزیشن انتہائی مایوس کُن ہے۔ اگر اس حالت کو بدلنا ہے تو ملک بھر کی جمہوری طاقتوں کو چاہیے کہ BJP حکومت پر دباؤ ڈالیں اور پُر زور مطالبہ کریں کہ کشمیری عوام کے وہ حقوق بحال کئے جائیں جو اُن سے چھینے گئے ہیں یا جو اُن کو سرے سے ملے ہیں نہیں ہیں ۔ کشمیر یوں کے دل جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ غیر مشروط طور پر تاریخی زیادتیوں کا اذالہہ کیا جائے اور اُن سب کے ساتھ جن کا کشمیر معاملے سے گفتگو اختلاف رائے رکھنے والے علاحدہ گی پسندوں اور پاکستانی سرکار سے بھی لازمی طور ہونی چاہیے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے علاوہ خطے میں حالات کو سدھارنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں نقش ہونی چاہیے کہ حالات کیسے بھی ہوں جنگ کوئی متبادل نہیں ہے۔ ہندو پاک کا ماضی مشترک ہے اور دونوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک پُرامن اور بہتر مستقبل کے لئے اُنہیں ایک ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ اُن کے باہمی رشتوں میں معنی خیز تبدیلی کے لئے سیاسی سوجھ بوجھ اور جرأت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے فی الحال اس جرأت اور سوجھ بوجھ کا فقدان ہے، تاہم کشمیری ماضی کے المیے کو دہرانا نہیں چاہتے وہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک روشن مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ امن ور ترقی کے خواہاں ہیں مگر اپنے وقار کی قیمت پر نہیں۔ موجودہ مرکزی سرکار اگر اس بات کو سمجھے گی اور اپنی ہٹ دھرمی کو ترک کرکے بات چیت کا بنددروازہ کھول دے گی تو یقینا امید کی ایک کرن پیدا ہوسکتی ہے اور موجودہ اندھیارے میں یہ کرن ایک راستہ دکھانے کئے لئے انتہائی ضروری ہے ۔
email: yousuftarigami@gmail.com