سرینگر //سی پی آئی ایم نے بی جے پی کی اتر پردیش اور اترا کھنڈ میں حالیہ انتخابی کامیابی کورائے دہندگان کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کا نتیجہ قراردیا۔ سی پی آئی ایم کے سینئر رہنماو ممبراسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے کہاکہ بھاجپا کی یہ کامیابی اگرچہ غیر متوقع نہیں ہے تاہم اس معاملے کی معروضی طور پر تجزیہ کی ضرورت ہے ۔ ان کاکہناہے کہ جہاں ایک طرف کارپوریٹ میڈیا اور سیاسی تجزیہ کاروں کا ایک طبقہ بی جے پی کی کامیابی کو ہندوستان کی سیاست میں ایک طوفانی تبدیلی قراردیتاہے وہیں کچھ مبصرین ان وجوہات کو غلط ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں جن کی بنیاد پر بی جے پی کو ان انتخابات میں تین چوتھائی اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔تاریگامی نے کہاکہ ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے آر ایس ایس برگیڈ کو ساتھ لیکر یوپی اوراتراکھنڈ میں فرقہ واریت کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے میں کوئی کثر نہ اٹھارکھی ، انہوںنے ریاست میں ہندو ووٹ کو یکجا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ذات پات کا کارڈ بھی کافی عیاری سے استعمال کیا ،اس کے ساتھ ہی پیسہ اور پروپیگنڈا بھی وسیع پیمانے پر استعمال کیاگیا۔سی پی آئی ایم رہنما نے کہاکہ انتخابات کے بعد جو چیز حیران کن بلکہ افسوس ناک طور پر سامنے آئی ، وہ آرایس ایس کے متنازعہ اور سرگرم کارکن یوگی آدتیہ ناتھ کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان کرناہے ۔ ان کاکہناہے کہ آدتیہ ناتھ نہ صرف ایک متعصب اور فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے شخص کے طور پر جاناجاتاہے بلکہ اس کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر فسادات کروانے اور اقدام قتل کے مقدمات بھی عدالتوں میںدرج ہیں ،ایسا لگتاہے کہ بی جے پی نے اپنے چہرے سے وہ نقاب ہٹالیاہے جو اس نے 2014کے لوک سبھا انتخابات میں یہ سوچ کر پہن لیاتھا کہ اسے اعتدال پسند سیاسی پارٹی کے طور پر تسلیم کیاجائے گا،لیکن حالیہ انتخابات میں آرایس ایس اور بی جے پی نے ہندوتواکے ایجنڈے پر چلتے ہوئے کھلم کھلا فرقہ واریت کے سہارے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا اپنا ایجنڈا واضح کیااور اس سلسلے میں کسی بھی خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی ۔ان کاکہناتھاکہ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پورے ملک میں بائیں بازو اور جمہوری قوتوں کو متحد ہوکرایک ایسی جدوجہد شروع کرنی چاہئے جس سے ملک میں فرقہ واریت اور پسماندہ خیالات پر مبنی سیاست کا توڑ کیاجاسکے اور بھارت میں سیکولر نیز جمہوری بنیادوں پر استوار کی گئی سیاسی اور تہذیبی وراثت کو بچایاجاسکے ۔انہوںنے کہاکہ بی جے پی نے انتخابات کے بعدیوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی کا وزیر اعلیٰ بنانے سے یہ بات واضح کی ہے کہ آرایس ایس کا نظریہ ہی بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا طے کرتاہے اور یہ بھی کہ اپنے ایجنڈا کو آگے لیجانے میں اب بی جے پی کسی طرح کا عار محسوس نہیں کرتی ہے،بی جے پی کا یہ رویہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتاہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں بھی وہ اپنے اسی موقف پر قائم رہے گی جس کے تحت مرکزی سرکار نے ریاست میں موجود ہ حالات سے نمٹنے کیلئے طاقت کے بے تحاشا استعمال کو ہی واحد ہتھیار کے طور پر استعمال کیاہے ، وہ کسی بھی صورت میں کشمیر مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سیاسی اقدامات کی خاطر تیار نہیں ہے بلکہ کشمیر کو اپنی حالت پر چھوڑنا ہی ان کی عوام کوتقسیم کرنے والی پالیسی کا حصہ ہے ۔انہوںنے کہاکہ بی جے پی سرکار کو یہ جان لیناچاہئے کہ اس رویہ سے کام نہیں چل سکتا اور جموں و کشمیر میں حالات خراب سے خراب تر ہوسکتے ہیں ،نیز عوام مزید بیگانگی کا شکار ہوگا۔