کشمیر کے حالات گواہی دے رہے ہیں کہ اقتدار و اختیار کے ہاتھوں سے سب کچھ چھوٹ چکا ہے ۔زمین پر جو ہورہا ہے اسے روکنے یا سبدلنے کی ہر کوشش ناکام ہے ۔ اقتدار و اختیار بے بس ہے ۔ہاتھ ملنے ، افسوس کرنے اور تماشہ دیکھنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ کار بھی نہیں لیکن اس صورتحال کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ بے اختیاری اور بے بسی کا عالم صرف ریاست کے ایک صوبے کشمیر میں ہے اس لئے بے کسی کی اس حالت کا عذاب مخلوط حکومت کی ایک جماعت پی ڈی پی کے حصے میں آیا ہے جس کی کانسچونسی کشمیر ہی ہے۔ دوسری جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی جس کا ووٹ بینک جموں ہے جہاں کوئی اتھل پتھل نہیں اس کا سیاسی فایدہ اٹھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہے ۔پی ڈی پی کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس گھناونے سیاسی کھیل کا حصہ بنے رہے جس میں وہ بری طرح سے ناکامیاں اوررسوائیاں اپنے نام کررہی ہے ۔اس طرح کشمیر اور پی ڈی پی دونوں تباہ ہورہے ہیں اور جموں و بی جے پی کے اہداف پورے ہورہے ہیں ۔بی جے پی کا مکروہ کھیل قدم قدم پر اپنے ثبوت پیش کررہا ہے ۔کشمیر کے موجودہ حالات کو سمجھنے اور ان حالات کو بدلنے کی موثر کوشش کرنے کی فکرنہ بی جے پی کی مرکزی قیادت کو ہے اور نہ ریاستی قیادت کو حالانکہ کشمیر کے حالات ملک کی بنیادوں کو ہلا رہے ہیں اس کے باوجود فکر اگر ہے تو صرف یہ کہ آنے والے انتخابات میں بی جے پی حتمی اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے اوراس کے لئے بڑی چابکدستی اور چالاکی کے ساتھ پی ڈی پی کو استعمال کیا جارہا ہے ۔رسانہ سانحے کے بعد کے سارے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو بی جے پی کے کھیل کا تانا بانا سامنے آئے گا ۔جب پی ڈی پی نے رسانہ سانحے کے ملزموں کو بچانے کیلئے بی جے پی ارکان اوروزراء کی ہنگامہ خیزیوں کیخلاف سٹینڈ لیا جس کاآغاز اور اظہار تصدق مفتی کے انٹریو سے ہوا تو چودھری لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا سے استعفے طلب کئے گئے ۔اس وقت ایسا لگا کہ بی جے پی دیانتداری کے ساتھ اس معاملے کی تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ملزموں کو سزا دلوانے میں تعاون کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن استعفیٰ دینے کے بعد لال سنگھ کے ارادے اور عزائم اور زیادہ بلند ہوئے اور انہوں نے رسانہ سے اپنے حامیوں کے ساتھ مارچ کرکے خم ٹھونک کر یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس معاملے کو سی بی آئی کے سپرد کروا کرہی دم لیں گے ۔ پھر جب عدالت عظمیٰ نے جموں بار کونسل کے ملزموں کے حق میں کھڑا ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے بار کونسل آف انڈیا کو تحقیق کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تو جموں بار کونسل کے صدر کا لہجہ بھی بدل لیا ااو ر اس نے آصفہ کے لواحقین کو انصاف دلانے کی بات کی لیکن پردے کے پیچھے بی جے پی کا کھیل جاری تھا ۔بار کونسل آف انڈیا کو نہ رسانہ کے حکام تک پہنچنے دیا گیا اورنہ ہی کرائم برانچ کے حکام تک۔ جموں بار اور بی جے پی کے موقف کو لے کر اس نے جو رپورٹ پیش کی، اس نے عدلیہ کی سوچ ہی بدل دی ۔ اس گمراہ کن رپورٹ کے بعد ہی عدالت عالیہ نے کیس کی شنوائی پر روک لگادی ۔ ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے تمام وزیروں سے استعفے لئے اور یہ تاثر پیدا ہوا کہ بی جے پی ان تمام عناصر کو جو مخلوط حکومت کے کام میں روڑے اٹکارہے ہیں، الگ کردیا جائے گا لیکن جب نئے وزراء کی فہرست سامنے آئی تو اس میں رسانہ کے ایم ایل اے کا نام بھی شامل تھاجو ملزموں کے حق میں مظاہروں کے دوران لال سنگھ کے ساتھ سرگرم کردار ادا کررہا تھا ۔ پھر اس کے بعد جب نئی کابینہ کا اعلان ہوا تو نائب وزیر اعلیٰ کویندر گپتا نے پہلا بیان یہی دیا کہ رسانہ واقعہ ایک معمولی نوعیت کا واقعہ ہے جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔کیا ایک ایسی جماعت کا نائب وزیر اعلیٰ یہ بات کہہ سکتا ہے جس کے دو وزیروں کو رسانہ معاملے پر ملزموں کا ساتھ دینے کے الزام میں مستعفی ہونا پڑا ہو ۔ نہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے ۔کویندر گپتا گولوالکر کے فلسفے کا فدائی ہے اور اس کا ذہن بہر حال اسی فلسفے کے گرد گھوم رہا ہے ۔ادھر لال سنگھ اب بھی ملزموں کے حق میں سرگرم ہے ۔ رسانہ سے مسلم گوجروں کو بے دخل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔ عدالت عظمیٰ میں اس کیس کی نوعیت اور ہیت بدل دینے کے منصوبے پر بھی کام ہورہا ہے ۔ ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت وہ کھیل کھیلا جارہا ہے جس کا واحد مقصد بی جے پی کے اس خفیہ ایجنڈے کی تکمیل اور آر ایس ایس کے فلسفے کی تعبیر ہے جو آج بھی عوام کی اکثریت کو قبول نہیں لیکن جسے بڑی حکمت عملی کے ساتھ نافذ اور رائج کیا جارہا ہے ۔اس سے ایک طرف جموں کی آبادی میں مسلم مخالف رحجان اور ہندوتوا کا جنون پیدا کرنا یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ ووٹ بینک میں وسعت پیدا ہوتو دوسری طرف آر ایس ایس کے فلسفے کو ذہنوںاور جذبوں میں اتارنے کا کام بھی کیا جارہا ہے ۔نرمل سنگھ کے بارے میں عام رائے یہی تھی کہ پی ڈی پی کیلئے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیںاور یہ با ت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ انہیں کابینہ سے الگ کیا جائے گا ۔ انہیں کابینہ سے ہٹا کر اور کٹھوعہ کے ایم ایل اے راجیوجسروٹیہ کو کابینہ میں شامل کرکے بی جے پی نے اپنی پارٹی کے اس گروپ کے جذبات کی تسکین کی اوراس کے مطالبات کو پورا کیا جسے پی ڈی پی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے ۔یہ جموں میں بی جے پی کو مضبوط بنانے کی ایک کوشش کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پی ڈی پی کیلئے بھی ایک انتباہ ہے کہ وہ اپنی حدوں میں رہے اور رسانہ معاملے میں ملزموں کی طرف داری کرنے والوں کیلئے حوصلہ افزا قدم ہے جس کے نتیجے میں لال سنگھ اور گنگا کے وزارتی عہدوں سے مستعفی ہونے سے پیدا ہوئی مایوسی کا تدارک بھی ہوا ۔انتہا پسندانہ فلسفوں ،چاہے وہ جس کسی بھی مذہب یا دھر م سے تعلق رکھتے ہوں، کیلئے مقاصد کے حصول کی کوشش میں جائز اور ناجائز کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ہے ۔آر ایس ایس کے بانیوں کے فلسفے میں بھی غیر ہندو عورت کا ریپ بھی مقاصد کو حاصل کرنے کا جائز ذریعہ ہے ۔جس طرح آئی ایس آئی ایس عورتوں کو غلام بناکر یا شادی کے نام پر ان کی آبروریزی اپنے مقاصد کیلئے جائز سمجھتی ہے اسی طرح ہندو انتہا پسندی کی فطرت اورذہنیت بھی عورت کے جنسی استعمال کو غلط نہیں سمجھتی ۔حالانکہ آصفہ ایک معصوم بچی تھی لیکن مسلم گوجروں کا رسانہ سے صفایا کرنے کے لئے معصومیت کو حیوانیت کی بھینٹ چڑھانا ضروری سمجھا گیا تھا اسی لئے جموں سے نئی دہلی تک بی جے پی انہی لوگوں کا ساتھ دے رہی ہے جو ملزموں کوبچانے کیلئے زمین آسماں ایک کررہے ہیں ۔یہ مقصد شاید پورا کرلیا جائے گا اگر معاملے کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کردی گئی اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے ۔
……………………..
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)