Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

بھاجپا کا انتخابی غلبہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 23, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
وزیر اعظم نریندر مودی غیروں کیا اپنوں کی تنقیدوں کی زد پر آگئے تھے جب اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے آخری مرحلے میں انتخابی مہم کے لئے بنارس کی گلیوں میں کمانڈوز کے ساتھ روڈ شو کرتے دیکھے گئے۔ریلیاں تو انہوں نے بے شمار کیں لیکن ان روڈ شوز کو نہایت ہی حقارت سے دیکھا گیااور جناب کا مذاق بھی اُڑایا گیا ۔اب جب کہ نتیجے آ چکے ہیں اور بنارس کی آٹھوں سیٹوں پر بی جے پی بلکہ مودی کامیاب ہو چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے نکتہ چیں اب بھی وہی موقف رکھتے ہیں یا انہوں نے اپنے موقف میں تبدیلی کر لی ہے؟مغالطے میں مبتلا شہری نتیجے کے ایک ہفتے بعد بھی اسی علّت میں ابھی تک غلطاں ہیں کہ یو پی میں ایسا کیوں کر ہوگیا!کچھ لوگ مایا وتی کے ذریعے مشینوں کے با اعتبار ہونے پر اٹھائے گئے سوالات کے حامی ہو گئے تو کچھ لوگوں نے دیگر وجوہات تلاش کرنی شروع کر دیں۔ سوشل میڈیا پر انتخابی نتیجے کی مخالفت میں ایک سے بڑھ کر ایک پوسٹس لکھے جانے لگے جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
آج کا مسلمان حقیقت سے آنکھیں چرانے میں سب سے آگے ہے ۔اگر اس کے من کے موافق کوئی کام نہیں ہوتا یا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تووہ بے سر پیر کے دلائل سے اس کے حق ہونے سے انکار کرتا ہے۔اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر خود کو حقائق سے غیر متعلق کر رہا ہے۔کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ ہندوستان کا مسلمان (جنوبی ہند کے مسلمانوں کو چھوڑ کر) ہندوستان میں اس طرح رہتا ہے یا رہنا چاہتا ہے جس طرح ایک ’’داماد‘‘ اپنے سسرال میں رہتا ہے۔شمالی ہند کا یہ کلچر رہا ہے کہ وہاں پر ’’داماد‘‘ کی بہت آؤ بھگت ہوتی ہے، چاہے وہ کچھ بھی نہیںہو۔’’کچھ بھی نہیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ خواہ وہ کماتا نہ ہو اورنہ ہی تعلیم یافتہ ہواور نہ ہی مستقبل قریب میں اس طرح کی کوئی امید ہو۔اس کے لئے اس کا صرف ’’داماد‘‘ ہی ہونا کافی ہے۔ کم وبیش یہی حالت ہندوستان میں مسلمانوں کی ہے ۔ان میں چند مستثنیٰ ہو سکتے ہیں ۔ہندوستانی مسلمانوں کو سب کچھ بنا بنایا ،سجا سجایا اور کیا کرایا چاہئے۔انہیں محنت نہیں کرنی ہے،تعلیم بھی حاصل نہیں کرنی ہے اور مقابلاجاتی امتحانات میں بیٹھنا بھی نہیں ہے بلکہ کسی بھی مقابلے میں حصہ نہیں لینا ہے۔ایک مدت سے یہ حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے کہ حکومت اس کے لئے کچھ کرے اور یہی سبب ہے کہ حکومتوں نے اس کا استحصال کیا ہے،اس کے ووٹوں کو ووٹ بنک سمجھا بلکہ کچھ پارٹیوں نے تو مسلمانوں کے ووٹوں کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور یہ مسلمان ان کے جھانسے اور لالچ میں آکر اپنے ووٹوں کو ان کی جھولی میں ڈال دینا نہ صرف ضروری سمجھتا ہے بلکہ فرض اولین گردانتا ہے۔
یو پی کے اِس انتخابی نتائج نے خاص طور پر اِس ووٹ بینک کی دھجیاں اُڑا دی ہیں ۔اگرچہ دلِت ووٹ بنک کی بھی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے لیکن مسلم ووٹ بینک کا تو تیا پانچا ہو گیا ہے۔اس سے قبل ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں بھی مسلم ووٹ بنک کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی اور ۲۰۔۲۵ ؍ فیصدی مسلم آبادی والی ریاست یوپی سے ایک بھی مسلم ممبر آف پارلیمنٹ منتخب نہیں ہوا اور ساتھ ہی مایاوتی کی دلت پارٹی بھی کوئی ممبر، پارلیمنٹ میں بھیجنے سے قاصر رہی ۔اِس صوبائی انتخابات کے نتیجے نے تو مایاوتی کا اپنی راجیہ سبھا کی سیٹ بھی قائم رکھنا مشکل کر دیا ہے کہ وہ راجیہ سبھا کے ایک ممبر کے لئے بھی مطلوبہ ایم ایل ایز کی تعداد جُٹا پانے سے بہت پیچھے ہیں ۔یہ تو سب کو پتہ ہے کہ جب بی جے پی نے اِس صوبائی انتخابات میں کسی ایک مسلم کو بھی ٹکٹ نہیں دیا تو ان کے پاس مسلمان ایم ایل ایز آئیں گے، کہاں سے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں سے وابستہ وزارتیں اب ضروری نہیں کہ مسلمانوں کے پاس رہیں اورممکن ہے کہ وہ وزارتیں ہی ختم کر دی جائیں اور ۲۵؍ فی صدی آبادی یوں منہ تکتی رہ جائے جیسے چڑیا چُگ گئی کھیت ۔
ایک عام مسلمان جو جوتے کی ہار اور قے کی بات کرتا ہے تو اس کے غصے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور وہ اندر سے اس قدر کڑھ رہا ہے کہ مسلمانوں کی قیادت سے وہ حد درجہ بیزار ہے۔ مسلمانوں کے بہتر فرقوں کی آپسی رسہ کشی بھی اُسے بے چین کئے ہوئی ہے۔وہ کہتا ہے کہ ہمارا خدا ایک،رسولؐ ایک ،قرآن(دستور) ایک اور پھر بھی ہم ایک نہیں ،جب کہ ان کے بھگوان ا نیک، اوتاربے شمار اور دستور ِ حیات ناقص و نا مکمل ،پھر بھی وہ ایک پلیٹ فارم پر موجود اور ہم متحد نہیں ۔ترقی وہ نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ہم تو بات بات میں اللہ اور رسول ؐکا واسطہ دیتے ہیں اور وقت پڑنے پر قرآن اور دستور تک کا سودا کر لیتے ہیں ۔بہرکیف یوپی اور اترا کھنڈ میں وزرائے اعلیٰ کا تقرر ہوا ہے ۔ اتنی بڑی ریاستوں جو با لترتیب امریکہ اور برطانیہ کی آبادی کے برابر ہیں ،کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہے اور نریندر مودی جیسی شخصیت بی جے پی میں دوسری نظر نہیں آتی جو یہ کام کر سکے۔جو بھی وزیر اعلیٰ بنایا گیا وہ ’’مہرہ‘‘ ہی ہوگا ، جس طرح آج گجرات کے وزیر اعلیٰ کا نام تک بھی لوگوں کے ذہن میں نہیں ہے اور نہ ہی اسے یاد رکھنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔بی جے پی پرسکون اس لئے ہے کہ دونوں ہی ریاستوں میں اسے دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے لیکن گوا اور منی پور میں بی جے پی نے میچ کے بعد جو درپردہ میچ کھیلا ہے وہ برسوں یاد رکھا جائے گا اور جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ہارے ہوئے میچ کو جتانا اسے ہی کہتے ہیں۔لوگ راہل گاندھی کی عمر کی بات کرتے ہیں،سیاست میں ان کی عدم بلوغیت کا بھی ذکر کرتے ہیں جب کہ امیت شا ان سے محض ۵۔۶؍ برس ہی بڑے ہیں۔اگر راہل گاندھی سیاست اور اخلاقیات کی آمیزش سے ناخوش ہیں تو انہیں سیاست کو خیرباد کہہ دینا چاہئے ۔جس تندی سے امیت شا نے گوا کے تعلق سے فیصلہ کیا وہ کبھی آنجہانی اندرا گاندھی کا خاصا ہوا کرتا تھا۔منوہر پاریکر کا وزارت دفاع سے استعفیٰ دِلواکر گوا کا وزیر اعلیٰ نامزد کر دینا اور چند وزراء کے ساتھ حلف بھی دِلوا دینا اپنے آپ میں ایک بے مثال واقعہ ہے ۔اپنی گورنر(شریمتی مردلا سنہا) ہونے کے اپنے فائدے ہوتے ہیں ۔مخالف پارٹی(کانگریس کے۱۷؍ارکان اسمبلی) چاہے احتجاج کرتے یا عدالت جاتے۔پاریکر نے اسمبلی میں تواپنی اکثریت بھی ثابت کر دی ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ۴۰؍ رکنی اسمبلی میں بی جے پی کے صرف ۱۳؍ ارکان ہیں اور مقامی چھوٹی پارٹیوں مثلاً گوا فارورڈ پارٹی(جی ایف پی) اورمہاراشٹر وادی گومنتک پارٹی(ایم جی پی) کے تین تین رکن ہیں جب کہ تین آزاد اراکین بھی ہیں۔ان تمام نے بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف انتخابات لڑے تھے اور ظاہر ہے کہ ان کا انتخابات سے پہلے کوئی سمجھوتہ نہیں تھا۔کچھ ایسا ہی منی پور میں بھی ہوا ۔۶۰؍ رکنی اسمبلی میں ۲۸؍ سیٹیں کانگریس کو ملیں ۔کانگریس محض ۳؍ سیٹیں جُٹا نہیں سکی اور بی جے پی صرف ۲۱؍ سیٹیں حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور اُس کو وزیر اعلیٰ (بِرین سنگھ) بنایا جو صرف ۴؍ماہ پہلے گزشتہ سال اکتوبر میں کانگریس چھوڑ کر آیا ہے۔یہاں بھی گورنر (محترمہ نجمہ ہپت اللہ ) بھاجپا کی اپنی تھیں ۔بادی النظر میں دیکھیں گے تو منی پور میںاور ملک کے اکثر حصوں میںبی جے پی کا اپنا بہت کچھ نہیں ہے۔ان کے یہاںزیادہ تر لوگ کانگریس چھوڑ کر آئے ہیں یا چھوٹی بڑی مقامی پارٹیاں۔بہرکیف منی پور میں انتخابات سے پہلے کسی بھی مقامی پارٹی مثلاً ناگا لینڈ پیپلس فرنٹ(این پی ایف ) یا نیشنل پیپلس پارٹی(این پی پی) سے کوئی انتخابی سمجھوتہ نہیں تھا جن کے ۴۔۴؍ ایم ایل ایز ہیں ۔ایک آزاد ایم ایل اے اسب الدین کامبینہ اغواء بھی حکومت سازی میں معاون ثابت ہوا۔ترنمول کانگریس (ممتا بنرجی کی پارٹی )کے واحد ایم ایل اے نے بھی بی جے پی کا تعاون کیا اور گوا میں این سی پی(شرد پوار کی پارٹی) کے اکلوتے ایم ایل اے نے بھی پاریکر کی مدد کی جب کہ یہ کانگریس کی نام نہاد شریک پارٹیاں ہیں ۔منی پور کے عوام کے لئے ۱۶؍ برسوں تک بھوک ہڑتال پر رہنے والی شرمیلا ارم(پیپلز ریسرجینس اینڈ جسٹس الائنس کے نام سے پارٹی بنائی تھی)تاکہ مرکزی حکومت منی پور سے افسپاہٹائے، کو صرف ۹۰؍ ووٹ ملتے ہیں تو میرے ایک سینئر تاجر دوست کا وہ جملہ یاد آتا ہے کہ ’’ہرے پتے میں بہت طاقت ہوتی ہے‘‘۔ ہرے پتے سے ان کی مراد کرنسی تھی۔اس تناظر میں اگر کہا جائے کہ نوٹ بندی ناکام ہو گئی تو اس صدی کا یہ سب سے بڑا جھوٹ ہوگا!
 نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِنو، نئی ممبئی کے 
مدیر ہیں،رابطہ9833999883
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ایس ایس پی ٹریفک سٹی سری نگر کی طرف سے میڈیا سیل کے قیام کا اعلان
برصغیر
نیشنل کانفرنس حکومت نے 8 مہینوں کے دوران زمینی سطح پر کوئی کام نہیں کیا:: اشوک کول
تازہ ترین
اودھم پور بارہمولہ ریلوے لنک سے کشمیر کے تمام لوگوں کو کافی فائدہ ہوگا: سکینہ یتو
تازہ ترین
ریاسی سڑک حادثہ ، گاڑی گہری کھائی میں جاگری ،11افراد زخمی
تازہ ترین

Related

کالممضامین

محسن ِ کشمیرحضرت سید علی ہمدانی ؒ شاہِ ہمدانؒ

June 3, 2025
کالممضامین

سالار عجم شاہِ ہمدان سید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 3, 2025
کالممضامین

علم الاخلاق اور سید علی ہمدانی ؒ تجلیات ادراک

June 3, 2025
کالممضامین

فضیلت حج مع توضیح منسلکہ اصطلاحات ایام حج

June 3, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?