ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میںنہیں جُز از نوا ئے قیصری
(اقبال)
سیاسیات ہند میں ان دنوں پانچ ریاستی اسمبلیوں اُترپردیش، پنجاب ، اُتراکھنڈ ، گوآ اور منی پور کے انتخابات اور انتخابی نتائج زیر بحث ہیں۔گزشتہ کئی ماہ سے ان ریاستوں میں انتخابی سرگرمیاں جاری تھیں۔ متعلقہ انتخابی پارٹیوں نے اپنی کامیابی کے لئے سب کچھ دائو پر لگارکھاتھا۔اس عرصہ میں سارا میڈیا ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات اور دیگر ذرائع نشر واشاعت اسی جانب متوجہ تھے۔ عوام بھی اپنے تمام عوامی مسائل ،تکلیفات ، مشکلات ، اور مصائب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لٹیرے طبقوں کی ترجمان انتخابی پارٹیوں کے کھیل میں مستفرق رہے۔ا ب جب کہ نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ ان نتایج پر تبصروں اور رائے زینوں کا سلسلہ شدومد سے جاری ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس ترجمان میڈیا ان انتخابات میں بھاجپا کی زبردست کامیابی، نریندرمودی کی ہردلعزیزی مودی لہر کی برقراری اور اسے نئے دور کا آغاز قرار دے رہاہے۔ کانگرس پارٹی ان انتخابات کوبھاجپا کی طرف سے کانگرس کو ہندوستان بدر کرنے کی حکمت عملی کوناکام قراردے رہی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کی مایاواتی ان انتخابی نتائج کو انتخابی مشینوں کی کاری گری سے منسوب کررہی ہے۔ سماج وادی پارٹی اور دیگر چھوٹی موٹی پارٹیاں اپنی ناکامی کے زخم چاٹ رہی ہیں۔ عمر عبداللہ نریندرمودی کے مقابلہ کا کوئی لیڈر موجودنہ ہونے کے باعث نریندرمودی کو ناقابل تسخیر شخصیت قرار دے رہاہے۔ غرضیکہ جتنے منہ اُتنی باتیں کے محاورہ کے مطابق مختلف بولیاں بولی جارہی ہیں۔
ہماری نظرمیں حالیہ انتخابات کے نتائج کاجائزہ لینے سے پیشتر یہ لازمی ہے کہ لٹیرے اور استحصالی طبقوں کے اقتدارمیں انتخابی عمل کی اس حقیقت کا ادراق کیا جائے اور ذہن نشین کیا جائے کہ لٹیرے طبقوں کے اقتدار میں جسے ’’بورژوا جمہوریت‘‘ کہتے ہیں۔ نہ تو غیر جابندارانہ انتخابات ممکن ہیں، نہ ہی ان انتخابات میں مختلف انتخابی پارٹیوں کے اعلانات، وعدے اور عہدو پیمان قابل ایفاء ہوتے ہیں اور نہ ہی ان انتخابات کے ذریعہ لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا نظام ختم کیا جاسکتاہے۔ اس نام نہاد ’ ’ بورژوا جمہوریت‘‘ میںلٹیرے حکمران طبقوں کی نمائندہ اور ترجمان پارٹیوں کی طرف سے یہ کھیل اس غرض کے لئے کھیلا جاتاہے تاکہ لٹیرے طبقوں کے اقتدار کو کوئی زک نہ پہنچے اور عوام انتخابی بھول بھلیوں میںپھنسے رہ کر حقیقی انقلابی اور عوامی جدوجہدوں کی طرف رُخ اختیار نہ کریں اور انقلاب کے ذریعہ عوامی جمہوریت کا قیام عمل میں لا کر لوٹ کھسوٹ اور استحصال سے پاک نظام قائم کرنے کے قابل نہ بن سکیں۔ لٹیرے حکمران طبقے خود انتخابی پارٹیاں وجود میںلاتے ہیں تاکہ اگر ان کی ایک ترجمان اور نمائندہ پارٹی سے عوام بدظن ہوجائیں تو وہ ان کی دوسری ترجمان اور نمائندہ پارٹی کے نرغے میںپھنس جائیں تاکہ وہ کسی انقلابی تحریک کی طرف مائل ہوکر استحصالی اور لوٹ کھسوٹ کے نظام کو ہی ختم نہ کردیں۔ اس سلسلہ میں علامہ اقبال نے سنہری الفاظ میںکہا ہے ؎
ہم نے خود شاہی کو پہنایاہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہریا ری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میرو سلطان پر نہیںہے منحصر
مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھانہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ اور مشن اندرون چنگیزے تاریک تر
اسی امر کے تابع ’’مغربی بورژوا جمہوریت‘‘ کا ہندوستان میںعمل ہورہاہے۔ اس ملک سے انگریزوں کے انخلاء کے بعد ستر سال گزر چکے ہیں اور ان ستر سالوں میں ا س نظام کے تحت کئی انتخابات عمل میں آئے ہیں۔ لٹیرے حکمران طبقوں کی مختلف پارٹیاں اور ان پارٹیوںکے اتحاد برسر اقتدار آئے ہیںلیکن بنیادی طورپر عوام کی حالت اور کیفیت نہیںبدلی۔ سامراج گماشتہ سرمایہ دار اور لینڈ لارڈ طبقے بدستور لوٹ کھسوٹ کررہے ہیںاور عوام الناس لوٹ کھسوٹ کا شکار ہورہے ہیں۔ اسی حقیقت کے پس منظرمیں حالیہ اسمبلیوں کے انتخابات اور ان کے نتائج کودیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ستر سال تک انتخابی دنگلوں اور کھیلوں کا حشر ہوا ہے، اس سے مختلف کوئی نتیجہ برآمد ہونے کی ہرگز توقع نہیںکی جاسکتی۔
حالیہ انتخابی نتائج کا غور سے مطالعہ کیجئے تو صاف نظر آجائے گا کہ لوگوں نے ان ریاستوںمیں برسراقتدار انتخابی پارٹیوں کے خلاف اظہار رائے کیاہے لیکن پھر لٹیرے حکمران طبقوں کی دوسری پارٹیوں کے نرغے میں پھنس گئے ہیں۔ اسے سیاسی الفاظ میں منفی ووٹ تو کہہ سکتے ہیں، لیکن مثبت نہیں۔ اُترپردیش میں جہاں کے انتخابات کا سب سے زیادہ چرچا ہے ، وہاںسماج وادی پارٹی برسر اقتدار تھی،ا س کی کارکردگی سے لوگ نالاں تھے۔ لوگوں نے اسے گرادیا۔ پنجاب میںاکالی دل بھاجپا کی گٹھ جوڑ کی سرکا ر تھی، اس کی خرمستیوں سے عوام تنگ تھے۔ اسے اقتدار سے ہٹا کر لوگوں نے اپنی ناراضگی کا بھرپور اظہار کیاہے۔ اُتر اکھنڈ میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی، لوگ اس سے ناراض تھے، اسے گرادیا۔ گوا میں بھاجپا کی حکومت تھی، لوگوںنے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ منی پور میںکانگریس کی حکومت تھی اور لوگوں نے اس کے خلاف اظہار ناراضگی کرتے ہوئے اسے شکست دی۔ اس لئے بجا طورپر ان نتائج کو برسراقتدار پارٹیوں کے خلاف اظہار رائے تو سمجھا جاسکتاہے لیکن اس کے باعث عوام کی زندگی میں کوئی بہتری و بہبودی آئے گی، ایسا ہرگز ممکن نہیںہے کیونکہ برسر اقتدار آنے والی انتخابی پارٹیاں بھی لٹیرے حکمران طبقوں کی نمائندہ ہیں، جنہیں وہ پیشتر ازیں بھی کئی بار آزما چکے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتائج کی روشنی میں اُترپردیش اور اُتر اکھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کواکثریت ملی ہے۔ وہاں اس پارٹی کو حکومتیں برسر اقتدار آگئیں۔ پنجاب میں کانگرس پارٹی کی سرکار قائم ہوگئی۔ گوا اور منی پور میں معلق اسمبلیاں وجود میں آئی ہیں۔ وہاں بھی بھاجپا اقتدارمیں آگئی ہے لیکن کیا عوام کی زندگی میں کوئی بہتری آسکے گی؟ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ برسراقتدار آنے والی پارٹیاں بھی لٹیرے حکمران طبقوں کی ہی نمائندہ ہیں۔ سابقہ برسراقتدار پارٹیوں کی طرح اُترپردیش چونکہ ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔ وہاں بھاجپا کی کامیابی اور وہ بھی بڑے پیمانہ پر فی الواقع ہی قابل غور ہے۔ بلاشبہ وہاں بھاجپا کی نمایاں کامیابی سے بھارتیہ جنتاپارٹی کے نہ صرف حوصلے بلند ہوئے ہیںبلکہ وہ جارحانہ رُخ کی بھی سمت اختیار کرنے کی طرف پیش رفت کررہی ہے۔ وہاں اسے برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کے خلاف اقتدار میں خرمستیوں کی وجہ سے بلاشبہ کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن اس کامیابی میں فرقہ وارایت اور ہندوتو کے پرچار کو بھی زبردست عمل دخل حاصل ہے۔اس کے باعث وہاں فرقہ وارانہ صف آرائی پیدا ہوئی جس کابھاجپا نے فائدہ اٹھایا ہے۔ انتخابات سے پیشتر اورانتخابات کے دوران ساکشی مہاراج، آدتیہ ناتھ اور دوسرے ریاستی لیڈروں نے انتخابات سے پیشتر ہی ایودھیا میں رام مندر، ہندو راشٹر، مسلم آبادی میںاضافہ، ہندو آبادی میںکمی ، گئو کشی اور گئو رکھشا، مسلم آبادی والے علاقوں سے ہند وآبادی کی نکاسی ، مسلمانوں کو شدھی کرکے ہندو بنانے کی مہم وغیرہ کے سلسلہ میں کافی حد تک فرقہ وارانہ صف آرائی کی ہوئی تھی لیکن انتخابات میں وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے بھی ’’اگر عید کے رو ز بھی بجلی تو دیوالی کے روز بجلی کیوں نہیں‘‘،’’ قبرستان کے لئے جگہ دی جاتی ہے تو شمشان گھاٹ کے لئے جگہ کیوںنہیں‘‘، ’’کاشی (بنارس) کا گودلیا بیٹا ‘‘۔ کرشن جی کو اگر گجرات نے اڈاپٹ کیا تو یوپی کو اس طرح مودی کو اڈاپٹ کرنا چاہئے کی محاورہ بازی اور پھر دوران انتخابات مندروں میںپوجا پاٹھ وغیرہ نے ’’ہندو تو‘‘ کے جذبات کو شہ دے کر فرقہ وارانہ صف آرائی کو زبردست تقویت دی اور کافی حد تک فرقہ وارانہ صف آرائی کو درجہ انتہا تک پہنچادیا اور ہندو شاؤ نزم پیدا کرکے بھاجپا کے حق میں فضاء پیدا کرنے میںکوئی کسر باقی نہ رہنے دی۔ الیکشن کمیشن اور انتخابی قوانین میں فرقہ وارانہ جذبات کی مخالفت کے باوجود بلاشبہ فرقہ وارانہ صف بندی کردی گئی جوکہ انتہائی مکردہ فعل ہے ۔ اس کی وجہ سے بھی بھاجپا کو انتخابی کامیابی نصیب ہوئی ہے جسے ہرگز نظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔ بھاجپا کی طرف سے پانچوںریاستی انتخابات میںکسی ایک بھی مسلم کو امیدوار نہ بنانے سے بھی فرقہ وارانہ صف آرائی کے باعث بھی بھاجپا کو ہندو جماعت کے طو ر پر پیش کرنے کی وجہ سے بھاجپا کو کامیابی میںمدد ملی ہے۔
علاوہ ازیں اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ نریندرمودی نے اپنی محاورہ بازی، فقرہ بازی، جملہ بازی اور فن تقریر کے جوہر سے بھی اپنے آپ کوبہترین سیاسی سیلز مین اور بہترین سوداگر ثابت کیاہے۔ پاکستان کے زیرا نتظام جموںو کشمیر میں مذعومہ کاروائی بے شک دہشت گردی روکنے میںناکام رہی ہو لیکن جس طرح نریندرمودی نے اس کو اپنی جوانمردی کے طورپر پیش کیا ، نوٹ بندی نے بے شک عملاً کوئی مثبت اثرنہ دکھایا ہو بلکہ لوگوں کو کئی مہینوں تک مصائب میں مبتلائے بلا رکھا ہو اور معیشت کو سخت نقصان پہنچایا ہو لیکن جس طرح نریندرمودی نے اسے کالے دھن کی بازیابی کی صورت میں پیش کیا، اس نے بھی اپنا اثربھاجپا کے حق میں دکھایاہے۔ اس کے مقابلہ میں مودی اور بھاجپا کے حریف ان معاملات میں مودی سرکار کی ناکامیوں کو اُجاگر کرنے میں قطعاً ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس نے بھی بھاجپا کی کامیابی میں اپنا اثر دکھایاہے۔ اس سے عیاں ہے کہ مودی صاحب سیاہ کو سفید۔ اندھیرے کو روشنی دکھانے کی پوری مہارت رکھتے ہیں اور اس فن میں پورے ماہر ہیں۔ 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں بھی انہوں نے اس قسم کی مہارت دکھا کر کامیابی حاصل کی تھی اور حالیہ انتخابات میں انہوں نے اس فن کاری کاخوبی سے مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے لئے ان کو واقعی داد دی جانی چاہیے۔ اسی فنکاری کی بدولت انہوں نے نہ صرف دوسری پارلیمانی پارٹیوں کومات دی ہے بلکہ بھاجپا کے اندر بھی انہوں نے لال کرشن ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی وغیرہ اپنے حریفوں کو کنارے اورٹھکانے لگادیاہے۔اس وجہ سے دانشور حلقوںمیں ہندوستان میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہونے کا خطرہ محسوس کیاجارہاہے۔
بہر صورت ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں حالیہ انتخابات کے روشنی میں یہ با ت وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فی الحال لٹیرے حکمران طبقے ’’ بورژوا جمہوریت‘‘ کے سائن بورڈ کے تحت انتخابات کا کھیل کھیل کر عوامی اور انقلابی جدوجہدوں کوروکنے میں کامیا ب رہے، جب ان کی نمائندہ ایک پارٹی ، پارٹیوں کا گٹھ جوڑ یا لیڈر ناکام ہوجاتاہے تو وہ اپنی نمائندہ دوسری پارٹی ، دوسرا گٹھ جوڑ اور دوسرا لیڈر سامنے لا کر انقلابی اور عوامی جدوجہدوں کے سیلاب کو روکنے میںکامیاب رہے ہیں اور عوام اپنی سادہ لوحی کے باعث ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ وہ شیر کے منہ سے نکل کر بھیڑئیے کے جبڑوں میںپہنچ جاتے ہیں۔ عوام کی سادہ لوحی اور بے چارگی پر فقط علامہ اقبال کے الفاظ ہی دوہرا سکتے ہیں ؎
وائے ناکامی متائح کا رواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے ا حساس زیاں جاتارہا
گزشتہ ستر برس میں لٹیرے حکمران طبقوں نے یہی کھیل کھیلا ہے اور ’’بورژوا جمہوریت‘‘ کے جال میں عوام کو پھنسا کر اپنی لوٹ کھسوٹ جاری رکھی ہے۔ ہر انتخاب کے بعد یہ عمل دوہرایا جاتاہے اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ
اِک گجر بجنے سے دھوکہ کھا گئے
پھر بھیانک تیرگی میں آگئے
موجودہ صورت حال سے مایوسی کی ضرورت نہیں۔ بہت جلد لٹیرے حکمران طبقوں کی انتخابی پارٹیوں سے تجربات کی روشنی میں عوام کا بہرہ ور ہونا یقینی اور لازمی ہے۔ عوام کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ انتخابی پارٹیوں کے تلوںمیں تیل نہیں، لوٹ کھسوٹ ، استحصال ، بھرشٹاچار، رشوت، گھپلوں، گھوٹالوں سے نجات، بے روزگاری کے خاتمہ، مہنگائی سے نجات، سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈ لارڈوں سے گلوخلاصی کا واحد راستہ انقلابی اور عوامی جدوجہدوں کے ذریعہ عوامی جمہوریت کے قیام میںمضمر ہے۔ عوام جتنی جلدی یہ راستہ اختیار کریں، اُسی میں ان کی کامیابی کا راز وابستہ ہے۔ ہمیںمکمل یقین ہے کہ ع
شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے