بھاجپا سیاسی مخالفین کے خلاف سیخ پا

Kashmir Uzma News Desk
10 Min Read
دولت،طاقت اور اقتدار کا کوئی اور چھور نہیں ۔یہ جتنا حاصل ہوتا جاتا ہے، اِس کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔اس کی مثال نمرود سے لے کر ہٹلر اور سکندر اعظم سے دی جا سکتی ہے۔اِن کے علاوہ بھی تواریخ میں سیکڑوں ہستیاں گزری ہیں جو دولت ،طاقت اور اقتدار کے نشے میں یہ بھول گئی تھیںکہ ہر عروج کا ایک زوال ہے۔اُنہوں نے اِن تینوں(دولت ،طاقت اور اقتدار)کے لئے کیا کیا تگڑم بازیاں نہیں کیں ۔اس کے لئے کروڑوں انسانی جانوں کے اتلاف سے لے کراربوںکی مالیت کی تباہی بھی ہوئی۔یہ لوگ تہذیب و تمدن کی مسماری تک بھی کرنے سے باز نہیں آئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں مربوط بھی ہیں ۔ تینوں کے امتزاج سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ نہ صرف معاشرے کو متاثر کرتی ہے بلکہ مستقبل پر بھی اپنا نقش چھوڑے بغیر نہیں رہتی۔اب یہ تو صاحبِ اقتدار پر منحصر ہے کہ اپنے کارناموں سے وہ حال کی تعمیر کس طرح کر رہے ہیںاور اُن کے رویوں سے مستقبل کی تعمیرکس طرح ہو رہی ہے؟اُن کے اندرانسانیت کا کوئی جذبہ موجزن ہے یا نہیںیا صرف وہ خود کے لئے اور اپنے کنبے کے لئے سارا زور لگا رہے ہیں۔کنبے سے مراد اُن کی اپنی کمیونٹی بھی ہے۔
گزشتہ کچھ دنوںسے بنگال کا ایک سیاحتی مقام’’دارجلنگ‘‘ جل رہا ہے۔کئی دہاہیوں کی خاموشی کے بعد اچانک ’’گورکھا لینڈ‘‘ کی مانگ میں شدت آگئی ہے۔دارجلنگ اور اس کے اطراف کے خطوں کا ماحول خاصاپُرسکون تھا۔ممتا بنرجی کی حکمت عملی سے نہ صرف وہاں کے لوگ خوش تھے بلکہ علاحدگی پسند عناصربھی قابو میں تھے۔۲۰۱۱ء میں اقتدار میں آنے کے بعد ممتا نے ’گورکھا ٹیریٹوریل ایڈمنسٹریشن(جی ٹی اے) کی تشکیل کر دی تھی اور گورکھا جن مکتی مورچہ (جی جے ایم) کے صدر وِمل گورنگ کو اس کا افسراعلیٰ نامزد کر دیا تھا یعنی جنہوں نے خرافات پیدا کئے ہوئے تھے اور آئندہ بھی کر سکتے تھے اُن کے ہاتھوں میں دارجلنگ کی کمان سونپ دی تھی۔جس بات کو لے کر آندولن چل رہا ہے یعنی کہ تقریباً ایک ہفتے سے بند اور توڑ پھوڑ کا ماحول جو بنا ہوا ہے وہ ریاست کے تمام اسکولوں میں پہلی جماعت سے لے کر دسویں تک بنگالی زبان کو پورے مغربی بنگال میں لازمی قرار دینے کا حکنامہ ہے جس میں ظاہر ہے کہ دارجلنگ بھی شامل ہے۔اسی کو موضوع بنا کر گورکھا جن مکتی مورچا نے احتجاج شروع کر دیا اور یہ احتجاج اُس وقت شروع کیا گیا جب ممتا بنرجی اپنی پوری کابینہ کے ساتھ دارجلنگ میں موجود تھیں ۔اس کے علاوہ چیف سیکریٹری، داخلہ سکریٹری اور مغربی بنگال کے پولیس چیف بھی وہاں موجود تھے۔حالانکہ ممتا نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ اعلان بھی کر دیا کہ دارجلنگ اس حکنامے سے مستثنیٰ ہے اور وہ چاہے تو بنگالی زبان کو رضا کارانہ طور پر اختیار کر سکتا ہے،اس میں کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی،لیکن اس کا کوئی اثر اُن احتجاجیوں پر نہیں ہوا یہاں تک کہ فوج کی کئی ٹکریاں تعینات کرنا پڑیں اور اب مرکز نے سہ فریقی مذاکرے کے لئے پیش کش بھی کر دیا ہے۔جی جے ایم کے لیڈران اس بات پر بضد ہیں کہ جب تک گورکھا لینڈ کے الگ صوبہ ہونے کی بات اس مذاکرے میں شامل نہیں کی جائے گی وہ مذاکرے میں شریک نہیں ہوں گے۔
بنگالی تھوپنے کو موضوع بنانا صرف ایک بہانا ہے ۔بات در اصل یہ ہے کہ ابھی ابھی ہوئے پہاڑی خطوں کے بلدیاتی انتخابات میں ایک خطہ ’’مِرّیک‘ ‘پر ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس نے قبضہ کر لیا ہے۔مئی کے انتخابات میں اگرچہ جی جے ایم نے دارجلنگ، کلِمپونگ اور کُرسیونگ پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھی لیکن مریک کے ہاتھ سے نکلنے کو وہ ممتا کی پہاڑی خطوں میں مقام بنانے کو اپنے لئے وارننگ سمجھ رہا ہے کیونکہ ممتا جی جے ایم پرگرفت رکھنے کے لئے تمام پہاڑی خطوں میں از سر نو مختلف بورڈ کی تشکیل دی ہے اور کلِمپونگ کو الگ ضلع بنانے پر بھی غورکر رہی ہے۔اس وجہ سے گورکھا لینڈ کے ’’ٹھیکیدار‘‘اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں ۔ایک بات اور ہے جو جی جے ایم کے سربراہ کے لئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے وہ یہ کہ ممتا بنرجی نے گورکھا ٹیریٹوریل ایڈمنسٹریشن (جی ٹی اے) کے۶؍ سالہ مدت کار کے حساب کتاب کے لئے آڈِٹ کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے ۔اس سے اِس کے چیف آفیسر(وِمل گورنگ) کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے ۔۔۔۔اوراِس جی ٹی اے کی مدت اسی جولائی میں ختم بھی ہو رہی ہے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جی جے ایم ،بی جے پی کی اتحادی یعنی این ڈی اے کا حصہ ہے۔ عجیب صورت حال ہے کہ بی جے پی اپنا وِنگ بڑھانے کے لئے ملک کے کسی بھی پُرسکون خطے میں آگ لگا سکتی ہے یا آگ لگانے والوں کا ساتھ دے سکتی ہے۔اسے ایسا لگ رہا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کے ووٹر بڑھ سکتے ہیں ۔پتہ نہیں بی جے پی کے پاس ملک کی فلاح کے لئے کون سا پیمانہ ہے؟ صرف اقتدار پر قابض ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہے اس کے لئے وہ خطہ یا صوبہ تباہ و برباد ہو جائے۔لوگ سرکاری املاک کو برباد کریں ،آپس میں خون خرابہ ہو،ہلاکتیں ہوں اور نہ جانے کیا کیا ہو۔بی جے پی کو شاید احساس نہیں کہ ملک کے شہری اس کے ایک ایک اقدام کو دیکھ رہے ہیں ۔ ممتا بنرجی سے بی جے پی کا چھتیس کا آنکڑہ ہے ،یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملک میں اور بالخصوص بنگال میں اُتھل پُتھل مچائی جائے اور وہ بھی بی جے پی کے ذریعے۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے یا سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ کہ جو بھی سرحدی صوبے ہیں ،وہیں پر بی جے پی انتشار پیدا کرتی ہے تاکہ کچھ سیاسی شعبدہ بازی کر سکے اور وہاں کے حالات کا فائدہ اُٹھا کر اپنی سیاسی دکان چمکا سکے۔
یہ پتہ چلا ہے کہ جی جے ایم کے رہنما وِمل گورنگ اور روشن گیری بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کے رابطے میں ہیں اوربی جے پی کے مغربی بنگال کے صدر سے بھی انہوں نے ملاقات کی ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ممتا بنرجی کو تنگ کرنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے کیونکہ قومی سطح پر صرف ممتا ہی ایک ایسی لیڈر ہیں جو بی جے پی یا مودی سے کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔وہ دن یاد کریں جب ممتا بی جے پی کی حلیف ہوا کرتی تھیں اور واجپائی حکومت میں ریلوے کی کابینہ وزیر بھی رہ چکی ہیں ۔اُس دور اور آج کے دور میں بہت بڑا فرق ہے کیونکہ واجپائی نام نہاد ہی سہی لیکن سیکولرزم کے علمبردار کہلاتے تھے اورگاندھی ،نہرو،آزاد وغیرہ کی نہ صرف عزت کرتے تھے بلکہ اُن کے کارناموں کو اپنی تقریروں میں جا بجا استعمال بھی کرتے تھے لیکن آج حالات با لکل بدل چکے ہیں ۔نہ کسی کی کوئی عزت ہے نہ وقار۔بی جے پی کے لیڈروں کے منہ میں جو بھی آتا ہے بک دیتے ہیں ۔
مغربی بنگال میں مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ آبادی ہے۔کمیونسٹوں کے بعد مسلمانوں نے ممتا بنرجی کو اقتدار سونپاہے۔کانگریسی بھی تھوڑا بہت مسلمانوں کا ووٹ پا لیتے ہیں لیکن ممتا بنرجی کو بیشتر جگہوں پر مسلمان یکمُشت اور یکطرفہ ووٹ دیتے ہیں ۔یہ بات بی جے پی جانتی ہے۔جانوروں کی خرید و فروخت کے تعلق سے قانون لانے کا بی جے پی کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اسے جانوروں سے پیار ہے بلکہ درِ پردہ وہ اس بنا پر ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ہندی خطے تو اس کے فریب میں آچکے ہیں ۔وہ اب یہ چاہتی ہے کہ جو خطے اس کی رسائی سے بہت دور ہیں اُن کو کیسے حاصل کرے ؟جو جو طریقے اپنائے جا سکتے ہیں خواہ اس کے لئے خون خرابہ ہی کیوں نہ ہو بی جے پی اپنارہی ہے اور اپنی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے کیونکہ آج اس کے پاس دولت بھی ہے،  اقتدار بھی ہے اور طاقت بھی۔
 نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں ،رابطہ9833999883
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *