جنوبی کشمیر میں کچھ عرصہ سے تواتر کے ساتھ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کی مارپیٹ اور املاک کی توڑ پھوڑکی خبریں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں ۔ بھلے ہی کوئی احتجاج ہو، جلسہ جلوس ہو یا پھر تازہ ترین واقع میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ، ایسا لگتا ہے کہ فورسز اہلکار کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جہاں انہیں اپنے اختیار کا مظاہرہ کرنے کا موقع میسر آئے ۔ حکومت کے لاکھ انکار کے باجود اس امر سے ا نکار ممکن نہیں کہ صورتحال ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے اور حالات کو سنبھالنے کے لئے ذمہ دار اداروں کے رویئے میں بھی غیر ذمہ دارانہ حد تک سختی آرہی ہے۔ جس عنوان سے رات کی تاریکی میں بستیوں کے اندر داخل ہو کر تلاشی کاروائیوں کے دوران لوگوں کی مارپیٹ اور انکی املاک کو نقصان پہنچانےکی خبریں آرہی ہیں، اس کے لئے کسی بھی جمہوری نظام میں کوئی جوا ز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ تجریہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ان زیادتیوں پر حکومت اور منتخب نمائندوں کی معنی خیز خاموشی بھلے ہی انکی بے بسی اور بے عملی کو ظاہر کر رہی ہو، لیکن بلواسطہ طور پر یہ اس عمل کی خاموش منظوری کے مترادف ہے۔1990کے حالات میں بھی سیکورٹی اداروں کی جانب سے اسی کے آس پاس حکمت عملی اختیار کی گئی تھی، جو وقت نے ثابت کیا ہے کہ ، حالات کو بہتر بنانے میں قطعی طور پر ناکام رہی۔ چنانچہ مختلف حکومتوں کو مختلف اوقات پر اس حکمت عملی میں تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑا اور موجودہ حکمران جماعت پی ڈی پی کے اولین دور حکومت میں شہری آبادیوں سے سیکورٹی فورسز کے انخلاء کے بہ سبب عام لوگوں نے راحت کی سانس لی تھی اور اسی حکمت عملی کے نتیجہ میں مذکورہ جماعت کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تھی مگر آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ فورسز کا رُخ پھر بستیوں کی جانب موڑا جا رہا ہے ، بلکہ کئی مقامات پر نئے کیمپ قائم کرنے کا عمل بھی شروع ہوا ہے۔ ریاستی حکومت اس معاملے میںمکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، جس سے صورتحال دن بہ دن گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ دوسری جانب بھارت بھر میں جس پیمانے پر الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے کشمیر مخالف مہم شروع کی گئ ہے، وہ ایک سرسری جائزے سے ہی منصوبہ بند معاملہ لگ رہا ہے، لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے اس پر بھی کوئی لب کشائی نہیں ہو رہی ہے۔ماہرین کا یہ ماننا شاید غلط نہیں کہ کشمیر کی صورتحال پر ملکی سطح پر مباحثہ کو فروغ دینے اور کشمیر کے اندر سخت رویئے کی حکمت عملی حکومت میں شریک بی جے پی کی سیاسی مجبوری ہوسکتی ہے کیونکہ دوبرس بعد انہیںووٹ کی خاطر پھر عوام کے پاس جانا ہو گااور گزرے تین سالہ عرصہ کی کمزور کارکردگی پر وہ پہلے ہی اپوزیشن کے نشانہ پر ہیں، لیکن پی ڈی پی کشمیر میں عوامی ووٹ پر منتخب ہو کر آئی ہے اور لوگوںکے جان مال کی حفاظت انکار آئینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی ریاست میں سیکورٹی کے حوالے سے حکمت عملی تشکیل دینے کے لئے ذمہ دار ادارہ متحدہ کمان کونسل کی چیئرمین بھی ہیں۔لہٰذا انہیں اس ساری صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیکر شہری آبادیوں میں تلاشی کاروائیوں کے دوران فورسز کی جانب سے مارپیٹ اور توڑ پھوڑ کی کاروائیوں، جو ایک مستقل معاملہ بنتا جا رہا ہے، پر روک لگانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے۔بصورت دیگر صورتحال میں مزید بگاڑ کو خارج از امکان قرا ر نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ٹکرائو اور تصادم معاملات کو سدھارنے کی بجائے بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ حالات کی بہتری کے لئے اس سے بچنا سبھوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس میں یہاں کی سبھی سیاسی جماعتوں، بشمول مزاحمتی خیمہ ، کو اپنا مثبت رول ادا کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔