بشارت بشیر
انسانی دنیا میں آج جہاں اخلاقی اور روحانی قدریں مِٹ رہی ہیں وہاں خاندانی نظام کی چولیں بھی ہِل رہی ہیں اور رشتوں میں مٹھاس کے بجائے کھٹاس نے باہمی محبت و مودت کو محض کتب لغت میں محفوظ اصطلاحوں تک مقید کرکے رکھ دیا ہے۔مغرب کے یہاں خاندان کا تعلق صرف ایک مرد اور عورت تک محدود ہے یا زیادہ سے زیادہ اِن کی اولاد اس دائرہ میں آتی ہے لیکن یہ بھی سنِ بلوغ کو کیا پہنچی تو اپنے والدین کی جانب نگاہِ غلط انداز ڈال کر ایک اَن جان منزل کے راہی بن جاتے ہیںاور پھر اپنے اعزہ و اقارب کی بات تو دور خود ان دالدین کے تئیںاُن کے دل میں محبت و رافت کی کوئی رمق تک نظر نہیں آتی۔اصل میں مغربی معاشرہ کی بنیاد یں بس مادیت کی ریتلی زمین پر رکھ دی گئی ہے اور یہاں باہمی انسانی محبت و مودت کا کوئی تصور نہیں جبکہ اسلام خاندانی نظام کو مستحکم دیکھنے کا متمنی ہے اور اس حوالہ سے اس کے فرامین اور ارشادات اس بات کے عکاس ہیں کہ یہ دین مبین کس قدر انسانی رشتوں کی ڈوروں کو مضبوط کرکے اُنہیں ایک دوسرے کے تئیں ہمدردو مخلص دیکھنا چاہتا ہے ۔اسلام میں خاندان کا ایک وسیع تصور ہے اس لئے اس نے صلۂ رحمی کو اپنی تعلیمات میں ترجیحی باب کا مقام دیا ہے ۔اس کے درس انفاق کو دیکھ لیجئے تو صاف نظر آئے گا کہ مِلت کے دوسرے مفلوک الحال لوگوں کی مدد کے مواقع پر با الخصوص اپنے قرابت داروں کا خیال رکھا جائے۔اور یہی بات سورہ بقرہ کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے ۔’’لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں ۔ جو مال تم خرچ کرواپنے والدین پر ،رشتے داروں پر ،یتیموں ،مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔‘‘اتنا ہی نہیں بلکہ رشتوں کی اس اہمیت کو ان الفاظ میں بھی صاف صاف واضح کرتا ہے ۔’’اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے بگاڑنے سے پر ہیز کرو ،یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے ۔(النسا)اس تعلق سے اس چشم کُشا آیت کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی جاکر قرابت داروں کے ساتھ ہم اپنے تعلق کا جائزہ لیں اور دیکھ لیںکہ اس وقت یہی اسلامی معاشرہ جِسے قرابتیں اور رشتے دِل و جان سے عزیز تر تھے آج دوسرے رشتہ داروں سے تعلقات تو دور کی بات ،خود ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے میاں بیوی،اولاد ،والدین اور بھائی بہن ایک دوسرے کے لئے اجنبی بنتے جارہے ہیں ،کھانے کی میز یا دستر خواں پر بھلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ہم طعام نظر آئیں لیکن دِلوں کی دنیا تل پٹ ہوچکی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت ،محبت عنقا نظر آرہی ہے ،ہر شخص بس اپنی ہی دنیا کا باسی اور اپنے مفادات کے حصول کا متمنی نظر آتا ہے ،پوتے پوتیاں ،بھائی بہنیں چچا، پھوپھیاں ،ماموں اور خالائیں اِن کے ساتھ ربط و تعلق تو بس ماضی کی داستانیں نظر آتی ہیں ،زیادہ سے زیادہ یہ کہ کسی تقریب میں ان کے ساتھ مڈ بھیڑ ہو،رسمی علیک سلیک ہو اور پھر ملنے کے وعدے ہوں،لیکن نہاں خانہ ٔ دِل میں ایک دوسرے کے لئے کوئی مرحمت و رافت نہیں ۔کہاں وہ دن کہ ان رشتوں کے تقدس پر جی جان سے نثار ہوا جاتا تھا اور کہاں یہ عالم کہ راہ چلتے بھی اب جیسے ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں اور اب خون اس قدر سفید ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کہ کسی رشتہ دار کے انتقال کی خبر بجائے اس کے افسردہ کرے ،بہت سارے لوگوں کو اس بات کا ملال ہوتا ہے کہ اب میت سے جنازہ میںدکھاوے کی شمولیت تو ضروری ہے لیکن دفتر وکارخانہ کا کام متاثر ہوگا یا دوستوں کے ساتھ آج کی گپ شپ کا موقع ہاتھ سے ہی گیا ۔ہائے وہ دن یاد آرہے ہیںجب ہم ایک دوسرے کے دست و بازو ہوا کرتے تھے ،ایک دوسرے کا دُکھ درد ہمیں تڑپاتا تھا اور ایک عزیز یا رشتہ دار کی موت ہمیں بہت عرصہ تک افسردہ کئے دیتی تھی لیکن ہائے وہ دن کیا ہوئے؟ہم تو انتہائی محبت و مودت کے جذبے کے تحت کئی روز تک نہ صرف یہ کہ کسی رشتہ دار کی موت پر اُس کے اہل خانہ کی دل جوئی کا بندوبست کرتے بلکہ اپنے ہمسایوں کے تئیں بھی ہمارا یہی وطیرہ رہتا لیکن وہ دولت بھی اب ہم سے چھن چکی ہے ۔اب ہم نے محلہ سطحوں پر کمیٹیاں قائم کی ہیں جو مرنے والے کے ایام تعزیت میں سوگواروں کے خورد و نوش کا بندوبست کرتے ہیں ،کیا جھلکتا اور کیا چھلکتا ہے ہمارے اس طرز عمل سے؟یہی نا کہ ہمارے دِلوں سے رشتوں کی وہ اہمیت ختم ہوچکی ہے ،محبت و مودت کے جذبات سے عاری یہ معاشرہ ،بس مجھے معاف کیجئے کولہو کا بیل بن چکا ہے جس کی زندگی کا مقصد واحد صرف ’’دولت کمائو مہم‘‘کا حصہ بنناہے۔ہم سب بس اپنے اندر کے خول میںمقید ہوچکے ہیں اور اپنے مادی مفاد ،ذاتی عیش و نشاط اور اپنی منفعت کے سِو ا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا ،وہ ہمارا ایک دوسرے کے ملنا جُلنا ایک دوسرے کے لئے جاں تک نثار کردینے کا عملی عمل کیا بس وہ ایک خواب تھا یا افسانہ؟دیکھئے ۔ اپنے مفلس رشتہ دار کی امداد کی اہمیت کس قدر ہے ۔فرمایا امام کائنات ؐ نے، مسکین کو صدقہ دینے کا اجر ایک صدقے کا اجر ہے جبکہ رشتہ دار کو صدقہ دینے کا اجر دوہرا ہے ایک صدقے کا اور ایک رشتہ داری کا ۔عملی دنیا میں دیکھ لیجئے: ہم اپنے کسی غریب رشتہ دار کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ،دیکھنا تو دور کی بات ،ہم اُسے اپنا رشتہ دار ظاہر کرنے میں بھی عار محسوس کرتے ہیں الا ماشا ء اللہ،اس کشت زار انسانیت کا آج حال یہ ہے کہ بھائی اپنے بھائی کو گھور گھور کے دیکھ رہا ہے اور اولاد اپنے والدین سے نالاں ہیں ۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہم اجنبی لوگوں اور اپنے دوستوں کے تئیں بہت ہی کشادہ دِل اور غم خوار و مونس نظر آتے ہیں ،اپنی وسعت قلبی کا برملا اظہار کرتے ہوئے دِکھتے ہیں لیکن بات جب بھائی بہن اور ماں باپ کی ہو تو ہمارے پیمانے بدل جاتے ہیں ،مخبر صادق ؐ نے قیامت کی نشانیوں میں سے تو یہ نشانی بھی بیان فرمائی ہے کہ ماں کو چھوڑ کر بیوی کی اطاعت ہوگی اور باپ کو خیر باد کہہ کر دوست کی توقیر کی جائے گی،آج انسانیت کھلی آنکھوں سے یہی مناظر دیکھ رہی ہے۔رسمی محبتیں اور شفقتیں توعام ہیں لیکن رشتوں میں وہ مٹھاس اور قرابتوں میں وہ درد کیا کافور ہوا؟ہسپتالوں میں جاکر دیکھئے ۔محض دنیا داری کے جذبہ کے تحت کسی بیمار رشتہ دار کی خبر پُرسی کے لئے گئے اپنی چرب زبانی اور چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ لانے سے اُسے اپنا سب سے بڑا ہمدرد اور شفیق جتلانے میں کوئی کسر باقی نہیں اُٹھاتے اور اُسے باور کرتے ہیں کہ تمہاری اس بیماری نے تو ہمارے گھر کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں،کھانا تک نہیں کھایا جاتا لیکن جب اسی دوران کسی ڈاکٹر صاحب نے اگر مریض کے لئے خون کے ایک دو پوائنٹ مانگ لئے تو یا تو فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں یا فوری طور اپنے دو چار عارضوں کا ذکر کرکے اس ایثار سے اپنی تہی دامنی کا اظہار کرتے ہیں ۔ہاں یہ سچ ہے اور کڑوا سچ جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے ،ایسا بھی نہیں ہے کہ سبھی لوگوں کی عینک بدل چکی ہے اب بھی اس کارگۂ ہستی میں صلہ رحمی کرنے والے لوگوں کی کمی نہیں لیکن مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو خون بہت سفید ہوچکا ہے۔مسلمہ بات یہی ہے اور تان یہاں ہی آکر ٹوٹتی ہے کہ محبتیں کافور ہورہی ہیں ۔نفرتوں اور عداوتوں کا چلن ہے ،جھوٹی مسکراہٹیں اور طفل تسلیاں ضرور ہیں لیکن اب یہ دِل ایک دوسرے کے لئے دھڑکتے ہی نہیں ،یہ آنکھیں اب کسی دوسرے کے دُکھ درد کو دیکھ کر چھلکتی ہی نہیں ،کیا یہ قلوب اب پتھر بن گئے ہیںاور آنکھوں میں پانی ہی نہیں ۔بات پھر یہاں آکر رُک جاتی ہے کہ حُب دنیا نے ہمارے دِلوں پر قبضہ جمایاہوا ہے اور باہمی رنجشوں اور عداوتوں میں سب سے زیادہ لوگ جو مبتلا ہیںاُن کی اکثریت صاحبانِ دولت وسرمایہ کی ہے۔مفلس بے چارے لڑیں تو کس بات پر ،اُن کے یہاں تو اب بھی رشتوں کے حوالہ سے کچھ حساسیت باقی ہے۔سرمایہ پرستوں کا بس یہ مطمع نظر کہ مٹی اُن کے لئے کیسے سونا بن جائے اور کروڑ پتی سے فوراً کیسے ارب اور کھرب پتی بنا جائے ۔اے کاش یہ غافل انسان ایک دفعہ بس ایک دفعہ سوچ لے کہ دنیا کی تاریخ میں کتنے راجے مہاراجے ،شاہ اور نواب آگئے وہ جن کے اقتدار و اختیار کا سورج بہت عرصہ تک ڈوبا ہی نہیں لیکن آج نہ صرف یہ کہ منوں مٹی کے نیچے دبے پڑے ہیں بلکہ اُن کا کوئی نام لیوا بھی نہیں۔آخر ھَل مِن مزید کی یہ چاہ اس انسان کو قبر میں پہنچادیتی ہیںلیکن آنکھ کھلتی ہی نہیں ۔کاش یہ انسان ایک دوسرے کا ہمدرد وغم خوار بنے ،دولت کے انبار آخر کس کام کے؟کچھ ایسا کیجئے رشتہ داروں سے قرابت داروں سے سماج سے ایسے تعلقات بنائے رکھے ،درد دِل کا کچھ اس انداز میں عملی اظہار کیجئے کہ دنیا دھنی سے جائیںتو کوئی آنکھ واقعی دِل سے روئے اور کوئی دِل واقعی غم زدہ ہو اور پھر دِل سے مرنے والے کے لئے دعائیںنکلیں،یہی وہ سوغات ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور نہ کوئی مثال۔یاد رکھئے یہ دنیا محبت کرنے کے قابل نہیں! اگر اس دنیا کا وزن اور قیمت اللہ کے یہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوگا تو کافروں کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے نہیں دیتا!
ہم یہ نہ دیکھیں کہ ہمارا رشتہ دار بدلے میں ہمارے اچھے رویہ کے کیا دیتا ہے ،اسی لئے امام کائنات ؐ نے فرمایا ہے:ــرشتے کے ربط و تعلق کو وہ شخص قائم نہیں رکھتا جو بدلے اور برابری کی سطح پر ایسا کرے بلکہ وہ شخص رشتہ قائم رکھتا ہے جس سے رشتہ کو توڑا جائے تو وہ اُسے توڑنے کے بجائے جوڑ دے۔‘‘رشتہ و قرابت کو ترازو میں مت تولئے کہ کوئی آپ سے صلہ رحمی کرے،محبت کا اظہار کرے،رشتہ جوڑے ،احسان کرے ،تحفہ دے بلکہ کمال تو یہ ہے کہ جو شخص آپ سے کٹتا ہے اُس سے جڑا جائیے ،جو آپ سے بھاگتا ہے اُس سے ملئے۔حقیقی صلہ رحمی تو ہے بھی یہی کہ جو آپ سے کٹ جائے اُس سے جڑاجائے ‘ہر لحاظ سے جڑا جائے تو آپ کا دِل فرحت محسوس کرے گا …………اور آج اس ڈیپریشن کے ماحول میں یہ عمل یقیناً ہمارے قلوب کو راحت فراہم کرے گا ۔جب ہم مفلس اور مسکین تھے تو رشتوں کی عظمت بام عروج کو چھو رہی تھی آج جب دولت ھن کی طرح برسنے لگی ہے ،تو رشتے کٹ رہے ،مٹ رہے ہیں ۔آیئے! اپنے کو بدل دیں صلہ رحمی کا اظہار کریں کہ دنیا پھر رشکِ ارم بن جائے ۔کیا ہم بدلیں گے ؟
رابطہ ۔7006055300