سرینگر//نا مساعد حالات کی وجہ سے کشمیر میں بالغ لوگوں میں نفسیاتی مسائل کوئی نہیں بات نہیں تاہم اب کشمیر کے نو نہال بھی ذہنبی الجھنوں کے شکار ہورہے ہیں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد خوف و دہشت کے ماحول کی وجہ سے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوچکی ہے ۔ سرینگر کے صدر اسپتال میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ابتک ایسے 144بچوں کا علاج کیا گیا ہے جو موجودہ نامساعد حالات کی وجہ سے بے چینی ، بے ہوشی اور ذہنی دبائو جیسی بیماریوں کا شکار ہوئے تھے۔ احتجاجی مظاہروں، فورسز اہلکاروں کی طرف سے املاک کی توڑ پھوڑ، عام شہریوں کو گھروں میں گھس کر مارپیٹ ،خون خرابہ اور نوجوانوں کی ہلاکتوں کا سیدھا اثر کشمیر میں کم عمر بچوں پر پڑ رہا ہے۔ صدر اسپتال میں قائم شعبہ نفسیات میں ماہر نفسیات اطفال ڈاکٹر اعجاز احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پچھلے تین سال کے نامساعد حالات کے دوران بچوں میں ذہنی امراض بڑھے ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا ’’ ہر مہینے ہم ایسے چار بچوں کاعلاج و معالجہ کرتے ہیں جو نامساعد حالات کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہوئے ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا’’ اگر پچھلے ہفتے کی بات کریں تو ہم نے ایک ایسے بچے کا علاج و معالجہ کیا جو پولیس ، فورسز اور فوج کو وردی میں دیکھ کر بے ہوش ہوجاتا تھا‘‘۔ ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا کہ بچے پر فورسز اہلکاروں کا خوف اتنا طاری تھا کہ وہ انہیں دیکھ کر بے ہوش ہوجاتا تھا تاہم جب ہم نے کیس کی معلومات حاصل کی تو معلوم ہوا کہ حالیہ دنوں میں فورسز اہلکاروں نے اس کے گھر میں گھس کر مکینوں کی شدید مارپیٹ کی تھی جس کی وجہ سے وہ بے چینی اور ذہنی دبائو کا شکار ہوا تھا ۔ ڈاکٹر اعجاز احمد نے بتایا کہ بچوں کو نفسیاتی امداد دینے کیلئے قائم کئے گئے اوپی ڈی میں ہر مہینے ایسے 3سے 4بچے آتے ہیں جو مظاہرین کی نعرہ بازی، فورسز اہلکاروں کی ٹیر گیس شلنگ، فورسز اہلکاروں کی طرف سے املاک کو نقصان پہچانے اور نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا نے جیسی صورتحال سے گزرکر ذہنی امراض ،جیسے بے چینی ، بے ہوشی اور ذہنی دبائو کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سال میں اس میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے کیونکہ ہم نے تین سال کے اندر ایسے 144بچوں کا علاج کیا ہے۔ ماہر امراض اطفال اور پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگرڈاکٹر قیصر احمد کول نے کہا ’’ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نامساعد حالات کی وجہ سے بچوں پر کافی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایسے کئی بچوں کا علاج و معالجہ بھی کیا گیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ بچے نہ صرف ذہنی دبائو اور بے چینی کے شکار ہوتے ہیں بلکہ معمولی سی باتوں پر تشدد پر اتر آنے کو آمادہ ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج تک جو بھی تحقیق ہوئی ہے وہ صرف بالغ لوگوں پر ہی ہوئی ہے اور امسال ہم شعبہ نفسیات کے ساتھ مل کر بچوں کی ذہنی صحت پر تحقیق کرانے جارہے ہیں جو جدید سائنسی بنیادوں پر ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحقیق بچوں میں پیدا ہونے والی ذہنی بیماریوں کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔