سرینگر // جموں وکشمیر کو زلزلے کیلئے انتہائی خطرناک علاقہ قرار دیا گیا ہے اور ماہرین نے اسے زون چار اور پانچ میںرکھا ہے جہاں اکثر وبیشتر زلزلے آنے کا خطرہ رہتا ہے۔ امسال جولائی تک وادی میں 7 بارزلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔زلزلہ زون 4اور 5میں آنے والی ریاست جموں وکشمیر میں بے ڈھنگی تعمیرات کبھی بھی انسانی جانوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں اور اس کی روکتھام کیلئے ریاستی سرکار نے بار بار زلزلوں کے جھٹکوں سے ہونے والے نقصانات کم کرنے کیلئے’’ بلڈنگ بائیلاز قانون‘‘ bulding bye laws} ( میں ترمیم لائی ۔نئے ترمیم شدہ قانون کے مطابق اب کوئی بھی کثیر منزلہ عمارت یا کوئی شاپنگ کمپلیکس یاپھر عام حالت میں رہائشی گھر بنانے کیلئے نئے ترمیم شدہ قانون کے مطابق ہی تعمیرات کی اجازت ہوگی اور محفوظ عمارات تعمیر کرنا لازمی بنایا گیا ہے۔8اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلے میں بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچنے کے بعد یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ زلزلے میں تباہ ہوئی سرکاری وغیر سرکاری عمارات کی تعمیر ضابطے اور قواعدکے مطابق نہیں کی گئیں تھیں اور یہی وجہ رہی کہ زلزلے میں بڑے پیمانے پر عمارات کو نقصان پہنچا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وادی میں بے ڈھنگے طریقے سے عمارات کھڑا کی جا رہی ہیں اور اُس کی روک ٹوک کیلئے کوئی کارروائی نہیں ہے جبکہ ماہرین نے پہلے ہی بالعموم ریاست اور بالخصوص وادی کو انتہائی خطرے والے علاقے قرار دیا ہے جہاں زلزلہ آنے کے ہر روز امکانات رہتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں ابھی تک زلزلوں کی پیشگی اطلاع کا کوئی نظام ایجاد نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زلزلے کا علم تب ہوتا ہے جب تباہی ہوچکی ہوتی ہے اور اس تباہی سے بچنے کیلئے عمارات کو ڈھنگ سے تعمیر کرانا انتہائی لازمی ہے۔نئی عمارات زلزلے سے محفوظ ہونے کیلئے ریاست میں کوئی قانون نہیں تھا تاکہ کسی بھی امکانی تباہ کاری سے بچا جاسکے لیکن ریاست کی سابق سرکار نے اس اہم معاملے کو مد نظر رکھ کر 6ماہ قبل شہری ترقی کے محکمے میں مکان یا دیگر تعمیرات تعمیر کرنے کیلئے بنائے گئے قانون’’تعمیرات کا اجازت نامہ‘ میں ایک اہم ترمیم کی جسے’بلڈنگ بائیلاز‘ کا نام دیا گیا۔بلڈنگ بائیلاز میں ترمیم سے اور اب اس قانون کے تحت ہی سرکاری وغیر سرکاری عمارات تعمیر کی جائیں گی جو زلزلے کے خطرے سے محفوظ ہوں۔محکمہ آفات سماوی کے حکام نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی میں متواتر طور زلزلے آنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امسال 6ماہ میں 7بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 31جنوری کو زلزلہ کا جھٹکا محسوس کیا گیاپھر یکم فروری کو 6.1شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا جس سے لوگ لر ز گئے۔اسکے بعد مارچ کے مہینے میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا البتہ اپریل میں پھر ایک بار شدت کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔28اپریل کو زلزے کی شدت ریکٹر سکیل پر 5.8 ریکارڈ کی گئی ۔10مئی کو بھی زلزلہ کا جھٹکا محسوس کیا گیاجس کی شدت 6.1ریکارڈ کی گئی۔ فروری اور مئی میں ایک جیسے جھٹکے محسوس کئے گئے کیونکہ شدت ایک جیسی تھی۔ 7جون کو زلزلے کی شدت 4.5ریکارڈ کی گئی۔ 21جوالائی کو زلزلے کا زوردار جھٹکا محسوس کیا گیا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 4.5ریکارڈ کی گئی تھی ۔پھر دوسرے دن یعنی 22جولائی کو آنے والے زلزلے کی شدت 5.9ریکارڈ کی گئی۔ان زلزلوں میں سے زیادہ تر کا مرکز ہندو کش سلسلہ یا افغانستان تھا لیکن ایک زلزلہ کا مرکز ضلع بانڈی پورہ کا علاقہ حاجن تھا ۔کشمیر عظمیٰ نے جب اُس حوالے سے ڈائریکٹرڈئزاسٹر منیجمنٹ عامر علی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ پہلے ریاستی سطح پر اُن کے پاس کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے تحت ایسی تعمیرات کو روکا جا سکتے، تاہم اب ’’بلڈنگ بائیلاز ‘‘ میں ترمیم سے ایک قانون بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون بن گیا ہے اور شہروں میں میونسپل کارپوریشن ،قصبوں میں میونسپل کمیٹیاں اور دیہی علاقوں میں بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر اور ضلع انتظامیہ کے افسران اس پر عمل کرائے گے۔انہوں نے کہا کہ اب نئی تعمیرات کیلئے مکمل اجازت نامہ حاصل کرنا لازمی ہوگیا ہے اور زلزلے سے محفوظ عمارات کی تعمیر کو ہی منظوری دی جائے گی تاکہ جانی نقصان سے بچا جاسکے۔