شفیع نقیب
خبر کا کام ہوتا ہے اطلاع دینا، ہوشیار کرنا، فہم بخشنا۔ لیکن آج کل خبر کا مطلب ہے: ہنگامہ کھڑا کرنا، گلا پھاڑنا، اور ہر قیمت پر ناظر کی توجہ کھینچنا ۔ خواہ خبر ہو یا نہ ہو! ہمارے نیوز چینلز پر تو یہ عالم ہے کہ ایک معمولی سا واقعہ بھی “ملک ہلا دینے والی بڑی خبر” بن کر سامنے آتا ہے، اور اینکر ایسے چیختے ہیں جیسے انہیں وراثت میں بریکنگ نیوز ملی ہو۔
صبح کا وقت ہے، چائے کی پیالی سامنے ہے، میں ٹی وی آن کرتا ہوں۔ ایک صاحبِ لحیہ اینکر “بڑی خبر” کے نعرے کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں سنسنی، آواز میں بھڑک۔ میری سانس رک جاتی ہے، دل دھڑکنے لگتا ہے۔ میں سوچتا ہوں: شاید زلزلہ آیا، شاید اسمبلی تحلیل ہو گئی، شاید کسی نے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن جناب خبر کیا نکلتی ہے؟
“وزیرِ خوراک نے آج چاول کے بجائے دال کھانے کا فیصلہ کیا!”
اب آپ ہی بتائے، یہ خبر بڑی تھی یا بڑی فضیحت؟
یہ سب کچھ سن کر میرے برابر میں بیٹھے ہوئے ایک بزرگ نے فرمایا:
“بھائی صاحب! ہماری جوانی میں ’خبر‘ سنانے والے خود خاموش ہوتے تھے، اور آج ’خبر‘ چیختی ہے، اینکر نہیں۔”
میں نے مسکرا کر کہا: “اب تو چیخنے والے اینکر اور روتی ہوئی خبر کا زمانہ ہے، میرے بھائی۔”
اب تو حال یہ ہے کہ ہر چینل ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگا ہے۔جیسے ہی ایک چینل “بڑی خبر” چلائے، باقیوں پر بھی قیامت آجاتی ہے۔ کسی کے اینکر کی گردن ٹیڑھی ہو رہی ہے،تو کوئی میز پر ہاتھ مار کر بول رہا ہے:
“یہ سوال ہم بار بار پوچھ رہے ہیں، لیکن حکومت خاموش ہے!”
جیسے حکومت کا کام ہر پانچ منٹ میں ٹی وی پر جواب دینا ہے۔
اور ہاں، بریکنگ نیوز کے بٹن پر اُنہیں کچھ ایسا عبور حاصل ہے جیسے کسی بچے کو موبائل گیم پر۔ ذرا سی ہلچل ہوئی نہیں، اور اسکرین پر لال پٹی دوڑنے لگتی ہے:
“سب سے بڑی خبر! ابھی ابھی!”
اور اگر خبر نہ ہو تو کیا؟ کوئی بات نہیں، ایسی ویڈیو چلا دیں گے جس میں ایک بلی مرغے کے پیچھے بھاگ رہی ہو — اور عنوان ہوگا: “کیا یہ اتفاق ہے یا سازش؟”
میری دانست میں اگر کسی دن واقعی کوئی “بڑی خبر” آ گئی تو لوگ اس کے بھی قائل نہ ہوں گے۔ وہ کہیں گے: “یہ بھی ٹرائل رَن ہوگا۔ اصل بریکنگ نیوز شام سات بجے آئے گی۔”
چند روز قبل ایک دوست ملنے آئے، کہنے لگے: “یار ٹی وی دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اینکر حضرات کسی فِٹنس ٹریننگ میں ہیں۔ آواز اونچی، سانس تیز، چہرے پر تناؤ۔ آخر یہ کس جرم کی سزا ہے؟”
میں نے کہا: “یہ سزا نہیں، ریٹنگ کی بھوک ہے اور اس بھوک میں خبر کا خون ہو رہا ہے!”
بات صرف اتنی ہے کہ سنجیدہ صحافت اب ناپید ہو چکی ہے۔ناظرین کی توجہ کھینچنے کے لئے چیخنا، دوڑنا، الزامات کی بارش کرنا، اور ڈرامائی پس منظر موسیقی شامل کرنا لازمی قرار پا چکا ہے۔ جیسے ہم خبریں نہیں، کوئی سنسنی خیز فلم دیکھ رہے ہوں۔
آخری بات یہ کہ اگر کسی دن کوئی اینکر دھیمے لہجے میں، ٹھہر ٹھہر کر، بغیر لال پٹی کے خبر سنائے گا’ تو یقین جانئے ناظرین گھبرا جائیں گے کہ “لگتا ہے واقعی کچھ خطرناک ہو گیا ہے!”
خدارا! خبروں کو خبر ہی رہنے دیں، انہیں قوالی، جنگ، یا تھیٹر کا روپ نہ دیں۔ ورنہ جلد ہی “بڑی خبر” یہ ہو گی”:ناظرین نے ٹی وی کی آواز بند کر کے چین حاصل کر لیا!”
ایک دن “بڑی خبر” والے اینکر کے ساتھ چل؟ ذرا تصور کیجیے کہ “بڑی خبر” والا اینکر دن بھر کیسے جیتا ہے:
صبح آنکھ کھلتے ہی گھڑی کو دیکھ کر چیختا ہے:اب سے کچھ دیر پہلے، بالکل اسی وقت! 6 بج کر 17 منٹ پر! میری آنکھ کھلی! یہ بڑی خبر ہے!”
بیوی ناشتہ سامنے رکھتی ہے تو نوالے کی طرف انگلی اُٹھا کر کہتا ہے: ’’دیکھئے ناظرین! یہاں آپ کے سامنے وہ پراٹھا رکھا گیا ہے جو ابھی ابھی فرائی ہوا ہے! جی ہاں، ابھی ابھی! یہ معمولی بات نہیں، یہ خود ایک بڑی خبر ہے!”
دفتر روانگی سے قبل آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر آواز گرم کرتا ہے: “آپ دیکھ رہے ہیں… میں دیکھ رہا ہوں… ہم سب دیکھ رہے ہیں… یہ آئینہ بھی دیکھ رہا ہے!”
“راستے میں اگر سگنل پر لال بتی جل جائے، تو موبائل نکال کر ویڈیو بناتا ہے:سوال یہ ہے: آخر سگنل ہمیشہ سرخ کیوں ہوتا ہے؟ آخر کون ہے جو ہمیں روکتا ہے؟ یہ اتفاق ہے یا کوئی سازش؟ ہم پوچھیں گے… ہم بتائیں گے… ہم دکھائیں گے!”
شام کو جب تھکا ہارا گھر آتا ہے اور بیوی پوچھتی ہے کہ دن کیسا رہا، تو فوراً دونوں ہاتھ فضا میں لہرا کر کہتا ہے:
“دن کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ میں واپس آ گیا ہوں، زندہ سلامت، سوال یہ ہے: کیوں؟ کیسے؟ کب؟”
اور پھر رات کو سونے سے پہلے تک بریکنگ نیوز کے خواب دیکھتا ہے ’’ جن میں بلیاں مرغوں کے پیچھے
بھاگ رہی ہوتی ہیں اور وزیرِ اعلیٰ گلاس سے پانی پینے کے بجائے چائے پی رہے ہوتے ہیں۔
بس صاحبو! یہ ہیں وہ عظیم لوگ جو ہر لمحے کو سنسنی خیز بنانے پر مامور ہیں۔
سچ پوچھئے تو اب ہمیں خبر کی نہیں، خاموشی کی طلب ہے۔ کبھی کبھار دل چاہتا ہے کہ اسکرین پر ایک سادہ سی لائن آئے:
“آج کوئی بڑی خبر نہیں… زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے!”لیکن ایسی سادگی… شاید ہمارے اینکروں کو زیب نہ دے!
رابطہ۔۔9622555263
[email protected]