ایس معشوق احمد
صاحبو اس دور میں شریف ہونا بے وقوف ہونے سے کم نہیں کہ لوگ شریف آدمی کو بے وقوف سمجھتے ہی نہیں بعض دفعہ بے وقوف بناتے بھی ہیں۔میں ہرگز اس کی وکالت نہیں کرتا کہ کمینہ بن کر کمینہ پن کرنا درست ہے ہاں اس کا وکیل ضرور ہوں کہ جو لوگ شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کم سے کم ان سے تو خود کو بچانے کی کوشش ضرور کیجیے۔مرزا نے یہ جملے سننی تو فرمانے لگے میاں کیا واعظ بننےکی کوشش کررہے ہو۔تمہاری ان احمقانہ باتوں سے شریف لوگ اپنی شرافت تھوڑی چھوڑ دیں گے اور کمینے بھی اپنی رذالت سے دستبردار نہیں ہوں گے سو بہتر یہی ہے کہ خاموش رہا کرو ۔کسی کمینے شخص نے یہ باتیں سن لیں تو اس کی سفلہ حرکات سے بچنا مشکل ہوجائے گا۔بس آنکھیں کھلی رکھو اور دل صاف، نہ تمہیں دھوکہ لگے گا نہ پاؤں میں کانٹا چبھے گا۔صاحبو ہمیں جتنا بے وقوف بننا تھا بن گئے ،جو نقصان اٹھانا تھا اٹھا لیا، سیانا بن کر یہ ضرور سننے کو ملا کہ بندہ پہلے شریف تھا اب بگڑ گیا ہے۔
اگر آپ کے پاس کوئی ایسا فرد آئے جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو اور زبان پر یہ کلمہ کہ آپ بڑے شریف آدمی ہیں تو جان لیجیے کہ وہ مطلبی ہے اور کسی خاص غرص سے آپ کے پاس آیا ہے۔وہ اپنی غرض کو عرض کی غلاف میں لپیٹ کر آپ کی سماعت تک لے آئے گا اور نہ کی گنجائش کو ایسے ختم کردے گا جیسے نشے سے اچھے بھلے شخص کی صحت خراب ہوتی ہے۔عرض کو غرض سے سن کر ہاں میں مدد کروں گا کا وعدہ کیا تو آپ شریف ہیں ورنہ ایک نمبر کے کمینے،رذلیل اور کم ظرف ہیں جو دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ نہیں رکھتے دوسروں کے کام نہیں آتے ، دوسروں کو مصیبت میں چھوڑ کر خود خوش رہتے ہیں، دوسروں کا سہارا نہیں بنتے یہاں تک کہ انسان ہوکر انسانیت اور خدمت خلق کا سبق بھول گئے ہیں۔
صاحبو پڑھے لکھے لوگوں کو شریف اور شرافت کے معنی بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ بقول مرزا شرافت عمل، اقدام ،طرز اور گفتگو سے نظر آجاتی ہے۔ پرکھنے والوں نے یوں تو شریف آدمی کی مختلف نشانیاں بتائی ہیں جن میں سے ایک یہ ہےکہ شریف آدمی مہذب اور بھلا مانس ہوتا ہے۔ظاہر ہے مہذب گالیاں نہیں دیتا،بدکلامی نہیں کرتا ،فضول گو نہیں ہوتا اور بھلا مانس حسد نہیں کرتا ،جھوٹ نہیں بولتا ،چاپلوسی نہیں کرتا بلکہ شریف آدمی تو شیریں بیان ہوتا ہے جو دوسروں کی برائیوں اور عیبوں کو بھی توصیف اور تعریف کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ شریف آدمی فقط سچ نہیں بولتا بلکہ سچائی کی راہ پر چل کرمثال قائم کرتا ہے۔اس گمان میں رہنے کی ضرورت نہیں جو میٹھی میٹھی باتیں کریں، معصوم سی صورت بناکر لوگوں کو بے وقوف بنائے، چاپلوسی اور چالاکی کا مظاہرہ کرکے دوسروں کو خوش کرے وہ شریف ہے بلکہ شریف وہ ہے جس کے شر سے اس کے حریف تک محفوظ رہیں۔
بارہایاروں دوستوں نےمیری شرافت کا امتحان لیا ہے اور ہر دفعہ اپنا نقصان کرکے میں نے ثابت کر دیا کہ میں بڑا شریف آدمی ہوں۔ پچھلے دنوں ایک بندہ آیا جس سے میری جان پہچان بس اتنی ہے کہ اس کی شکل دو چار دفعہ دیکھی ہے۔کہنے لگے معشوق میاں میں نے تمہاری شرافت کے چرچے سن رکھے ہیں تم ہر ایک کی مدد کرتے ہو میری بھی مدد کردو۔مرزا نے سنا تو فرمانے لگے معاونت کے محتاج کے پاس کوئی مدد مانگنے آئے تو سمجھ جانا کسی ایسی چیز پر نظر پڑ گئی ہے جو انمول ہے یا کسی ایسی شئے کے پیچھے پڑ گیا ہے جو اس کی نظر میں کھٹک رہی ہے۔ خیر صاحب غرض نے تمہید کو طول دینا مناسب نہ جانا اور اپنا مدعا یوں بیان کیا کہ میرا بیٹا ماشاء اللہ پی ایچ ڈی کررہا ہے۔اسفند قادری کہنے لگے میاں آجکل ہر فرد ہی پی ایچ ڈی ہے یا مظلوم شوہر۔جس کے سر پر بال نہیں سمجھ لیجیے وہ پی ایچ ڈی ہے اور جو معصوم اور غمگین دکھائی دے سمجھ لینا کہ مظلوم شوہر ہے۔خیر سائل نے اپنا بیان جاری رکھا کہ تم وہ تھیسس لکھ کر اس کی مدد کردو۔ میرا بیٹا ڈاکٹر بن جائے اس سے بڑی خوشی کیا ہوگی۔میں انکار اس لئے نہ کرسکا کہ اس نے میرے متعلق سن رکھا تھا کہ میں بڑا شریف آدمی ہوں۔مرزا کہتے ہیں کہ شریف آدمی سے کوئی منہ کے دانت اور سر کے بال بھی مانگ لے تو وہ انکار اس سبب سے نہیں کرسکتا کہ بڑا شریف آدمی ہے۔
میاں یہ دنیا ہے اور یہاں شریف آدمی کا امتحان قدم قدم پر لیا جاتا ہے۔ ان امتحانات سے وہ پریشان ہوتا ہے لیکن اُف تک نہیں کرتا، اس کا آرام چھن جاتا ہے لیکن زبان پر شکوہ نہیں آتا،نقصان پر نقصان وہ برداشت کرلیتا ہے لیکن انکار کی جرأت اور ہمت نہیں آتی۔ان قربانیوں کے باوجود اس کی عزت نہیں ہوتی اور نہ اپنی نیکیوں کی بدولت وہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس کو احمق گردانا جاتا ہے فقط اس وجہ سے کہ وہ بڑا شریف آدمی ہے۔شریف آدمی دوسروں کی نظروں میں کمینہ بن جاتا ہے جب وہ ادھار دی ہوئی رقم واپس مانگ لیتا ہے،اپنے حق کو چھوڑنا ترک کردیتا ہے،مفت کام کرنا بند کردیتا ہے،اپنا ضروی کام چھوڑ کر دوسروں کے غیرضروری اورفالتو کام کرنا بند کردیتا ہے۔مرزا کہتے ہیں شریف آدمی کمینہ نہیں بن سکتا کہ شرافت کے حصار کو توڑنے کی اس میں ہمت نہیں ہوتی۔یہ خیالات اسفند قادری نے پڑھے تو فرمانے لگے میاں انشائیہ لکھو اصلاحی مضمون کی حدود میں کیوں داخل ہورہے ہو۔تم بھی انشائیہ کے بجائے مضمون لکھنے لگے تو انشائیہ اور مضمون میں فرق کرنا محال ہوگا سو طنز کے کھانے میں مزاح کا سالن ملاکر کھایا کرو طنزومزاح لکھ لیا کرو گے۔
���
کیلم، کولگام
موبائل نمبر؛8493981240