تین متاثرہ کنبوں کے 24 افرادبیمار ہوئے، 13بچوں سمیت 17کی موت ہوئی ، 7بچ گئے
بشارت راتھر
کوٹرنکہ //بڈھال راجوری کے 3بد قسمت کنبوں کی المناک کہانی2دسمبر کو شادی کی ایک تقریب سے شروع ہوئی ہے۔ شادی کی تقریب کے 5روز بعد اموات کا سلسلہ شروع ہوا اور ابھی تک17افراد ابدی نیند سوگئے ہیں۔حکام نے پہلے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ اموات فوڈ پوائزننگ سے ہوئی ہیں لیکن بعد میں کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کھانے میں زہریلی قسم کا مادہ اموات کی وجہ بن گیا ہو۔راجوری سے 69 اورکوٹرنکہ اور تحصیل خواص سے 15کلو میٹر دور بڈھال بی ، ایک دور افتادہ پہاڑی گائوں ہے۔یہاں پیش آنے والی اموات کاحیران کن پہلو یہ ہے کہ اموات صرف ان 2کنبوں میں ہی نہیں ہوئیں جو آپس میں قریبی رشتہ دارے ہیں ، اور جو شادی کی تقریب میں شامل تھے،بلکہ ایک ایسے گھر میں بھی ہوئی ہیں، جو انکا دور کا رشتہ دار ہے،جسے شادی پر نہیں بلایا گیا تھا اورجن کا کوئی فرد بھی دعوت پر نہیں آیا تھا۔اس گھر میں7روز بعد 12دسمبر کو موت نے دستک دی۔حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ جو پورا کنبہ دعوت پر گیا تھا، انکے ہاں ایک ماہ کے زائد عرصے کے بعد امواتیں شروع ہوئیں۔ مجموعی طور پر ابھی تک 3 متاثرہ خاندانوںکے 24افرادبیمار ہوئے، جن میں سے13بچوں سمیت17کی موت ہوئی جبکہ ایک خاتون فضل حسین کی اہلیہ، 3سگی بہنیںتعظیم، نازیہ،خالدہ کے علاوہ دو لڑکیاںسائمہ کوثر اور شبنم اختر اورمحمد اعجاز بچ گئے۔
شادی کی تقریب
مقامی لوگوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ2دسمبر 2024 فضل حسین کے گھر بیٹی سلطانہ کوثر کی شادی کی تقریب تھی ۔ 5کلو میٹر دور گونڈا نامی گائوں میں طے ہوئی تھی۔ گائوں کے رسم و رواج کے مطابق دن میں ہی دلہے اورمہمانوں کیلئے دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔اس دعوت میں محمد اسلم کی پوری فیملی اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا نیز ہمسائیوں کو بھی دعوت کھلائی گئی۔تاہم کچھ ہمسائیوں نے دعوت پر جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور کچھ لوگ گئے نہیں۔محمد اسلم اور رفیق آپس میں بہنوئی سالے ہیں۔اسلم ، فضل حسین کا بہنوئی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک دورکے رشتہ دار محمد رفیق کو نہیں بلایا گیا تھا، جس کے گھر میں زیادہ امواتیںہوئی ہیں۔گائوں کے چوکیدار محمد بشیر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محمد فضل کے گھر میں قریب 200لوگوں کیلئے کھانا پکایا گیا، جسے گائوں کے ماہر آشباز محمد اعظم نے پکایا تھا جو عام طور پر گائوں میں ہونی والی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں کھانے پکاتے رہے ہیں۔محمد اعظم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے 200لوگوں کیلئے کھانا بنایا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ بارات کیلئے 60سے 65لوگ آئے تھے۔محمد اعظم نے کہا کہ وہ دوسرے گائوں میں رہتے ہیں۔چوکیدار نے مزید بتایا کہ شادی کی تقریب میں انہیں بھی بلایا گیا تھا لیکن اُسکی روز کسی دوسری جگہ مصروفیات تھیں اسلئے وہ نہیں گئے۔محمد بشیر نے کہا کہ پر اسرار اموات کا ہونا سب سے حیران کن ہے کیونکہ اگر شادی کی تقریب میں کھانے میں کچھ ہوتا تو دو تین سو لوگ بیمار پڑتے۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ دلہے کیساتھ بہت سارے لوگ تھے لیکن کوئی ایسی شکایات یا کوئی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا۔انہوں نے مزید کہا کہ غور طلب بات یہ ہے کہ دلہے اور باراتیوں کیلئے بھی اسی دن دعوت تھی۔لیکن ابھی تک کوئی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا۔
اموات کا سلسلہ
شادی کی تقریب کے 5روز بعد6دسمبر شام دیر گئے فضل حسین اور اسکے4بچے بیمار پڑ گئے اور انہیں پہلے کنڈی اور بعد میں راجوری ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔7دسمبر کوفضل حسین کی موت واقع ہوئی جبکہ دوسرے روز8دسمبر کو بیٹی رخسانہ کوثر، بیٹے رخسار احمد، اور بیٹی عرفانہ کوثر کی موت ہوتی ہے جبکہ12دسمبر کو بیٹے رفتار احمد ابدی نیند سوگئے۔فضل حسین کی اہلیہ شمیم اختر ہسپتال میں داخل رہی اور تین ہفتے بعدگھر لوٹی۔ شمیم اختر اور اسکی وہ بیٹی سلطانہ کوثر زندہ بچ گئی ہے جس کی شادی ہوئی تھی۔
دوسرا مرحلہ
اموات کا دوسراسلسلہ12 دسمبر کو محمد رفیق کے گھر پہنچ گیا۔ فضل حسین کے گھر سے تقریباً آدھ کلو میٹر دور آبادمحمد رفیق، انکا ایک دور کا رشتہ دار ہے لیکن اسے شادی کی تقریب میں نہیں بلایا گیا تھا۔لیکن اسکے باوجود اسکے گھر میں امواتیں ہوئیں جو انتہائی حیران کن ہیں۔12دسمبر کو محمد رفیق کی ایک بیٹی 6سالہ نازیہ کوثر کی موت گھر پر ہوئی اور باقی اہل خانہ بھی بیمار ہوگئے۔ چنانچہ باقی اہل خانہ کو پہلے کنڈی اور پھر راجوری ہسپتال میں منتقل کردیا گیا جہاں 6دن تک انکا علاج و معالجہ کیا گیا لیکن 17دسمبر کو اس دوران اسکا بیٹا اشتیاق احمد نوشہرہ ہسپتال میں فوت ہوا۔جبکہ 18دسمبر کو دوسرا بیٹااشفاق احمدکی جموں ہسپتال میں موت واقع ہوئی۔محمد رفیق کی اہلیہ رزیم بیگم، جو 6ماہ حاملہ تھی،22دسمبر کو بیمار ہوگئی اور اسے جی ایم سی راجوری منتقل کیا گیا جہاں23دسمبر کو وہ فوت ہوئی۔اس گھر میں محمدرفیق اور اسکے 4بچے بچ گئے ہیں۔
تیسرا مرحلہ
فضل حسین کے بہنوئی محمد اسلم ولد محمد شریف کے گھر ایک ماہ 7دن یعنی شادی کے 37روز بعد اموات کا سلسلہ شروع ہوا، حالانکہ فضل حسین کے گھر میں شادی کی تقریب میں دونوں قریبی رشتہ دار کئی روز تک ایک ساتھ تھے۔11جنوری کے محمد اسلم کے اہل خانہ ایک ساتھ بیمار ہوئے اور انہیں ہسپتالوں میں داخل کرنا پڑا۔12جنوری کو اسکے بیٹے ظہور احمد کی موت ہوئی۔13جنوری کو دوسرا بیٹا معروف احمد فوت ہوا۔13جنوری کو ہی بیٹی نیبہ کوثر انتقال کر گئی جبکہ14 جنوری کو بیٹی سفینہ کوثر اور ماموں محمد یوسف کی اموات ہوئیں۔اموات کا سلسلہ یہاں ہی نہیں رکا بلکہ 16جنوری کوایک اور بیٹی زبینہ کوثر اور17جنوری کو مامی جٹی بیگم زوجہ محمد یوسف کی موت واقع ہوئی۔محمد اسلم کی اہلیہ شکیہ بیگم آج تک بالکل ٹھیک تھی لیکن وہ آج یعنی سنیچر کو بیمار پٹری ہے اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو فوری طور پر گائوں میں طلب کیا گیا ہے جس نے اسکا معائنہ کیا۔محمد اسلم کا صرف ایک بچہ زندہ رہ گیا ہے۔ اسکی بیٹی 16سالہ یاسمین اختر جموں میڈیکل کالج میں زیر علاج رہی جہاں اسکی حالت انتہائی نازک تھی اور 7روز بعد 19جنوری کو اسکی موت واقع ہوئی۔اسلم کے گھر میں صرف میاں بچے ہیں۔
گائوں سے منتقلی
364افراد پر مشتمل 87 خاندانوں کو بڈھال سے راجوری منتقل کیا گیا ہے۔ ان خاندانوں کو فی الحال گورنمنٹ نرسنگ کالج اور گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری سکول اور جی ایم سی میں رکھا گیا ہے اور وہ زیر نگرانی ہیں۔ ڈاکٹروں اور ضلعی انتظامیہ کی کڑی نگرانی میں خاندانوں کو کھانا، پانی، بچوں کی خوراک، سینیٹری کی اشیا، ادویات، کپڑے اور دیگر روزمرہ کی ضروریات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے 240 بستر، 490 کمبل اور 303 گدے فراہم کیے ہیں، جبکہ 176 بستر، 300 کمبل اور 240 گدے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔سائٹ پر موجود میڈیکل ٹیم ،جس میں 3 ڈاکٹرز اور 6 پیرا میڈیکس شامل ہیں،24 گھنٹے ڈیوٹی پر مامور ہیں،اہم نگہداشت کی ایمبولینسیں مقامات پر تعینات ہیں۔سی سی ٹی وی نگرانی کے تحت کچن میں کھانا تیار کیا جاتا ہے، کھانے کے نمونے این ایف ایل غازی آباد اور پٹولی فوڈ ٹیسٹنگ لیب، جموں میں جانچ کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔آنگن واڑی کارکنان اور چائلڈ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ آفیسرز چھ ماہ سے کم عمر بچوں کی دیکھ بھال کے لیے تعینات ہیں۔ سکول جانے والے بچوں کے لیے عارضی سکولنگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔دستکاری کے اساتذہ اور آئی ٹی آئی انسٹرکٹر افراد کو ٹیلرنگ اور دیگر تجارتوں میں تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے سلائی مشینیں فراہم کی گئی ہیں۔
باقی آبادی
بڈھال میں باقی 808 گھرانوں (3,700 افراد)کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے، گائوں کو 14 کلسٹروں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کی نگرانی 182 اہلکاروں کی کثیر محکمانہ ٹیمیں کرتی ہے۔تمام دکانوں اور اداروں کو سیل کر دیا گیا ہے اور سخت نگرانی میں راشن فراہم کیا جا رہا ہے۔ ٹیمیں شفٹ شدہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 424 گھریلو جانوروں اور 168 پولٹری پرندوں کو کھانا کھلا رہی ہیں۔خوراک اور استعمال کی اشیا کے روزانہ نمونے لینے کا عمل جاری ہے اور جی ایم سی راجوری میں جانچ کے لیے 167 خون، پیشاب اور ناک کے نمونے جمع کیے گئے ہیں۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمشنر کی نگرانی میں ایک کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔