میر شوکت
وادی ٔ ہمالہ کی نرم آغوش میں وہ صبح ایسے اتری تھی جیسے برف کی چادر پر کسی نے سنہری کرن سے خواب لکھ دیا ہو۔ چناروں کی سُرخ پتیاں ہوا کے ہلکے ہاتھوں سے بکھرتی تھیں تو یوں لگتا تھا جیسے خزاں نے اپنی شاعری کا پہلا ورق زمین پر رکھ دیا ہو۔ پہاڑوں کی سفید چوٹیاں آسمان کو چھوتی ہوئی، نیلگوں ہواؤں میں گھنٹیوں کی مدھر آواز کی طرح گونج رہی تھیں، جیسے کوئی نامعلوم خانقاہ صدیوں سے دعا پڑھ رہی ہو۔ ڈل جھیل کی سطح پر ہلکی لہریں یوں جنبش کرتی تھیں کہ لگتا تھا پرانی غزل کے مصرعے پانی پر لکھے ہوں،کبھی نرم، کبھی شوخ، کبھی اداس اور کبھی ہنسی کے بوجھ تلے ٹوٹنے والے۔اسی منظر کی آغوش میں بڈگام کا انتخابی دن جیسے اچانک جاگا ہو۔ عام دنوں میں چائے کی دکانوں سے اٹھتی بھاپ، سیب کے باغات کی میٹھی مہک اور پرانے گھروں کی چھتوں سے اترتی دھند فضا کو ایسے بھر دیتی ہے جیسے کسی نے وادی کے ریشمی رومال پر خوشبو لگا دی ہو۔ مگر آج کی ہوا میں خوشبو کے ساتھ ہلکی شوریدگی بھی تھی، جیسے کسی نے سکون کے تالاب میں کنکر پھینک دیا ہو۔ ہر گلی، ہر موڑ، ہر مٹی کی لکیریں انتخاب کے قدموں کی چاپ سے لرز رہی تھیں۔بڈگام کا میدانِ انتخاب اس روز پرانی کہانیوں کا ایسا باب دکھائی دے رہا تھا، جسے پڑھتے ہوئے قاری ہنس بھی دے، چونک بھی جائے اور پھر ہنسے تو اس ہنسی میں چھپی چبھن خود اسے محسوس ہو۔ ووٹر آ رہے تھے، جیسے کسی شادی کی برات، فرق فقط اتنا کہ دلہا ووٹ تھا، دلہن وعدہ اور سسرال والے وہ عوام جو سب کچھ دیکھ کر بھی مسکرا دیتے ہیں، جیسے جانتے ہوں کہ برات تو آئی ہے مگر رشتہ شاید پھر ٹوٹ ہی جائے گا۔ایک بوڑھا کسان اپنا پرانا فوجی کوٹ پہنے، داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا،’’یہ ووٹ بھی میرے سیب کی فصل کی طرح ہےمیٹھا بہت، مگر جو پہلے کھا لے وہی دعویٰ کرے کہ محنت اس کی ہے!‘‘ اس کی آواز میں صدیوں پرانی مٹی کی مہک تھی، وہ مہک جو برف کے نیچے بھی سانس لیتی رہتی ہے۔چناروں کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے درختوں نے اپنے بازو پھیلا کر ہر راہگیر کو پکارا ہو’’ہوشیار رہو! وعدوں کی دھوپ بہت تیز ہے، کہیں تمہارے یقین کی جلد نہ جَھلس جائے!‘‘ کسی موڑ پر جھیل کا عکس کھڑا تھا، پانی کی آئینہ داری میں امیدواروں کی مسکراہٹیں مسخ ہو رہی تھیں، جیسے کسی نے چہرے پر نقاب اتارنے کی کوشش کی ہو۔ منظر بار بار بدلتا مگر طنز کی دھار کہیں کم نہ ہوتی۔
نیشنل کانفرنس کا خالی چھوڑا ہوا ہل ،وہ نشان جو دہائیوں سے اس زمین کی لکیر بنا رہا تھا،آج تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔ جیسے پرانے ہل کی لکڑی بارشوں میں بھیگی ہو اور اب ہاتھوں میں وزن سے زیادہ یاد بن کر رہ گئی ہو۔ عمر عبداللہ، جو گاندربل جیت کر یہ سیٹ چھوڑ چکے تھے، سری نگر کے کسی دفتر کی کھڑکی سے شاید بڈگام کی سمت جھانک کر سوچ رہے ہوں گے،’’کیا یہ قربانی تھی، یا بے بسی کا پہلا نوحہ؟‘‘ ان کی مسکراہٹ جیسے کسی مجبوری کے کاندھے پر رکھی ہو،کمزور، مگر شائستہ۔اُدھر پی ڈی پی کا قلم و دوات، آغا سید منتصر محمدی کے ہاتھ میں ایسے چمک رہا تھا جیسے نوجوانی کا جوش پہلی بار احتجاج لکھنے کو بے چین ہو۔ اس کے جلسے، مسجد جامع کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کی جانے والی تقریریں اور چائے کے کپوں کی بھاپ میں اُڑتے وعدے،سب مل کر عجیب سی سرمستی پیدا کرتے۔ لوگ ہنستے بھی، سوچتے بھی اور کبھی کبھی اس کے الفاظ میں چھپا طنز یوں دل میں چبھتا کہ قہقہہ بھی آہ بن جاتا۔
ایک دن وہ سبزہ زار میں کھڑا بولا،’’یہ وادی ماں ہے۔ اس کی مٹی پر جو لکھا جائے گا وہ نسلوں کی پیشانی پر ثبت ہو گا۔ ہل والے کہیں تو ٹھیک ،مگر ہل کب چلتا ہے؟ جب بیج سچائی کا ہو، نہ کہ اندرونی لڑائی کا!‘‘ لوگوں کی ہنسی میں بجلی سی لہر دوڑ گئی؛ ہنسی جو دل کو ہلکی سی گدگدی دے مگر سوچ کو گہرا زخم بھی۔نیشنل کانفرنس کا امیدوار سنجیدہ لہجے میں کہتا،’’ ہم نے سیٹ عوام کے لیے چھوڑی تھی، اب اسے واپس لوٹائیں گے!‘‘ مگر اس کے لفظوں میں موسم بہار کی وہ نرمی نہ تھی جس کا خواب ووٹر دیکھتے ہیں۔ اس کی آواز جیسے بھاری کمبل کے نیچے دبی ہو۔ لوگوں کے چہروں پر ایک سوال تیرتا: ’’حق کس کا ہے؟ اور کون سی شاخ پر یہ حق اگتا ہے؟‘‘ اندرونی اختلافات کی تیز ہوا درختوں کی جڑیں ہلا رہی تھی ،شاید اسی ہوا نے پتے اڑا دیئے اور ووٹ بھی۔بی جے پی کی مہم وادی کے اس روپ میں کسی غیر مانوس برات کی طرح داخل ہوئی۔ رنگ برنگے جھنڈوں اور زور دار نعروں کے ساتھ جب ان کے کارکن تنگ گلیوں میں گھسے تو دکانداروں کے چہروں پر ایک نرم طنز ابھرا۔ ایک چائے والے نے بی جے پی کے کارکن کی بات سن کر ہنستے ہوئے کہا،’’سنہرا دور؟ پہلا سیب ہتھیلی پر رکھ کر دیکھو، اگر اس پر دہلی کی دھوپ پڑے تو شاید پگھل جائے!‘‘ اس کی داڑھی پر چائے کی بوند ایک آنسو کی طرح چمکی، مگر آنسو نہیں تھا، وہ وادی کی وہ ہنسی تھی جو کسی کے وعدوں پر یقین نہیں کرتی مگر سن کر لطف ضرور اٹھاتی ہے۔چائے کی خوشبو، پہاڑوں کی دھند اور جھیل کی نمی شام کی ہوا میں گھل کر منظر کو اور بھی شاعرانہ بنا دیتی۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر دیواروں پر لٹکی بچوں کی تصویریں جیسے سچ بول رہی تھیں۔ ایک نقشے میں ہمالہ کی چوٹی ایسے کھڑی تھی جیسے پکار رہی ہو،’’پہاڑ تو مضبوط ہیں، مگر سیاسی قدم کب پھسل جائیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا!‘‘ دوسرے میں جھیل کا منظر، جو اپنی خاموشی میں پوچھ رہا تھا، ’’اس بار کس امیدوار کا سایہ پانی پر ٹوٹے گا؟‘‘ایک عورت، پھولوں کی ٹوپی پہنے، ووٹ ڈال کر باہر نکلی۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی—چاندنی کی ایسی کرن جو برف کے دل میں راستہ بنا لے۔ نوجوان نے پوچھا،’’بی بی! کیا فیصلہ کیا؟‘‘ وہ مسکرا کر بولی، ’’بیٹا! ووٹ تو دل کی آواز ہے، مگر دل بھی کبھی کبھی ڈر کر ہنستا ہے۔ یہاں وعدے برف کی طرح ہیں،پگھلتے بھی ہیں اور بہہ بھی جاتے ہیں۔ دیکھیں، اس بار کس کے دامن میں ٹھنڈک پہنچے گی!‘‘
شام ہوتے ہی پہاڑوں نے سورج کی آخری لالی اوڑھ لی، جیسے کسی صوفی درویش نے اپنا چغہ بدلا ہو۔ وادی پر چاندنی کی نرم چادر پھیل گئی اور پھر نتیجوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آغاسید منتصر محمدی کی جیت کی خبر نے بڈگام کو ایسے روشن کیا جیسے چناروں کے بیچ چراغ جل اٹھے ہوں۔ لوگ تالیاں بجاتے، قہقہے لگاتے، مگر ہر آواز میں ایک دبے لفظوں کا طنز بھی تھا،’’اگلا وعدہ کب پورا ہو گا؟‘‘نیشنل کانفرنس کا ہل اس بار جھک سا گیا تھا۔ جیسے کسی پرانے شاعر کی آخری غزل کا وہ شعر جس میں درد زیادہ اور امید کم رہ جائے۔ سری نگر میں عمر عبداللہ کی مسکراہٹ ٹی وی اسکرین پر دکھائی دی، مگر اس مسکراہٹ کے پیچھے جو تھکن تھی، وہ وادی کی ہر ہوا نے محسوس کی۔ وہ تھکن جو ذمہ داری کے بوجھ، پارٹی کی اندرونی کھینچا تانی اور عوام کی بے باک نظریں ساتھ لے کر چلتی ہے۔بی جے پی دور سے یہ سب دیکھتی رہی، کمل وادی کے تالاب میں کھلنے کے لیے بے چین ضرور تھا، مگر موسم ابھی سرد تھا۔ لوگ کہتے،’’یہاں کمل نہیں کھلتا، یہاں قلم لکھتا ہے اور ہل زمین کو جانتا ہے۔‘‘
رات گہری ہوئی۔ ڈل جھیل کی لہریں خاموش تھیں، مگر ان کی خاموشی میں بھی ایک گہرا سوال چھپا تھا: ’’اگلی صبح کیسی ہو گی؟‘‘ چائے کی دکانوں میں بیٹھے لوگ اب بھی انتخاب پر باتیں کر رہے تھے۔ ہر ہنسی کے پیچھے ایک فکر چھپی تھی، ہر فکر کے پیچھے ایک امید۔ اور ہر امید کے پیچھے ایک تہری مسکراہٹ ،جس میں طنز بھی، محبت بھی اور تھوڑا سا درد بھی۔ادھر روح اللہ کی عمر عبدللہ سے اندرونی بغاوت نے ایسا جوش مارا کہ خالی صراحی میں جام اُبلنے لگے اور ساقی کو خبر تک نہ ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آغا سید کی جیت، بڈگام کی مسکراہٹ، روح اللہ کی دبی بغاوت اور شہزادے کی بے بسی ،چاروں نے مل کر اس دن کا ایسا چہرہ بنایا۔ وہ چہرہ جو وادی کے آئینے میں دیر تک جھلملاتا رہے گا اور سیاست سے نفرت کرنے والوں میں کچھ اور خدا پرستوں کا اضافہ ہو گا خیر یہ سب چلتا ہی رہے گا اور ہمالہ کی چوٹیوں سے یہ صدا آتی رہے گی کہ’’کہانیاں بدلتی رہتی ہیں، مگر وادی کی ہنسی۔۔۔ وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
[email protected]