سید مبشر
اکثر والدین یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات نہیں مانتے، ہر بات پر اپنی من مانی کرتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر ضد کرتے ہیں۔بچوں کی یہی ضد آگے چل کر نہ صرف خود ان کے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ شروع سے ہی بچوں کی تربیت میں ان عوامل کو مد نظر رکھیں جو بچوں کی شخصیت بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر آپ کا بچہ ضدی ہے تو سب سے پہلے آپ ان وجوہات پر غور کریں،جن کی وجہ سے وہ ضد یا غصہ کرتاہے۔سب سے پہلی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کا بچہ جس قسم کا رویہ اپنا رہا ہے،عین ممکن ہے کہ گھر کے کسی فرد کا رویہ بھی اسی قسم کا ہو،یعنی اس فرد میں غصہ اور ضدی پن پایا جاتا ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ بچے اپنے ماحول سے زیادہ سیکھتے ہیں،ایسی صورت میں بچے ماحول سے ضد یا غصہ کرنے کی عادت اپنا لیتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے موقف یا اپنی بات سے پھر جاتے ہوں،مثلاً آپ نے بچے سے کہا کہ اگر تم اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دو گے تو تمہیںفلاں چیز نہیں ملے گی،مگر اس کی تعلیمی کار کردگی بہتر نہ ہونے کے باوجود اسے مطلوبہ شئے دلادی جاتی ہے یا اسے کسی غلطی پر خوب ڈانٹا جاتا ہے اور پھر فوراً ہی پیار بھی کر لیا جاتاہے۔اس طرح بچہ آپ کی کہی ہوئی کسی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا اور پھر یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔
تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اکثر والدین بچوں کے رونے دھونے سے گھبرا جاتے ہیں اور فوراً ان کی خواہش کو پورا کر دیتے ہیں۔یاد رکھیں! بچے اکثر اپنے رونے دھونے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔اس لئے آپ پہلے اس بات پر غورکریں کہ آیا وہ کسی تکلیف کے تحت رو رہا ہے یا محض اپنی بات منوانے کے لئے ضد کر رہا ہے۔اگر بچہ رو دھو کر اپنی بات منوانے کی کوشش کر رہا ہے تو اْسے نہ صرف سختی سے ڈانٹیں،بلکہ نظر انداز کریں۔ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کی توجہ کسی اور طرف لگا دیں۔جب آپ یہ جان لیں کہ آپ کے بچے کے ضدی پن کی وجہ کیا ہے تو اس کے تدارک کی کوشش کریں۔
واضح رہے کہ بچہ پیدائشی ضدی نہیں ہو تا،بلکہ یہ آپ کی تر بیت پر منحصر ہے کہ وہ کس روپ میں ڈھلتا ہے۔بچوں کی تمام تر اْمیدیں ماں باپ سے وابستہ ہوتی ہیں اور والدین بھی فطری محبت کے باعث مجبور ہو کر بچے کی جائز و ناجائز بات مان لیتے ہیں۔والدین کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ بچہ کس چیز کے لئے ضد کر رہا ہے۔ اگر مذکورہ چیز حاصل کرنے کی خواہش بیجا ہے، مثلاً جیسے اس کے پاس رنگین پنسلوں کا سیٹ پہلے ہی سے موجود ہے اور وہ پھر بھی مانگ رہا ہے تو آپ اسے پیار و محبت سے سمجھائیں کہ آپ کے پاس یہ پہلے سے موجود ہے لہٰذا پہلے اسے استعمال کرے،جب یہ ختم ہو جائیں گی تو نیا دلا دیا جائے گا۔
اگر بچہ کھانے پینے کی ایسی چیز کے لئے ضد کر رہا ہے،جو مضر صحت ہے تو اسے نرمی سے سمجھائے کہ یہ شے اس کے لئے نقصان دہ ہے۔بچوں سے ہمیشہ واضح الفاظ میں بات کیجئے۔ انھیں بتائے کہ گھر میں مہمان کے آنے پر انھیں کس طرح رہنا ہے۔بچوں کے بے جا رونے دھونے سے ہر گز پریشان نہ ہوں،بلکہ انھیں نظر انداز کریں اور ان کی طرف متوجہ نہ ہو۔کوشش کریں کہ اس طرح رونے کی نوبت ہی نہ آئے۔
بچہ جب بھی کسی چیز کے لئے ضد کرے تو فوری طور پر اس کا دھیان بٹانے کی سعی کریں۔بچے اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں،اس لئے بچوں کے سامنے اچھی عادات کا مظاہرہ کریں، تاکہ بچے بھی ایسی ہی عادات اپنائیں۔ بچوں کی تربیت میں محض سختی یا بے جا پیار سے کام لینے کے بجائے درمیانہ راستہ اپنائیں اور انھیں موقع کی مناسبت سے سمجھائیں۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)