چلڈرن ہسپتال بمنہ سرینگر آج کل پھر سرخیوں میں ہے ۔گزشتہ دنوں کشمیر عظمیٰ نے اپنے صفحہ اول پر خصوصی سٹوری کی صورت میں یہ رونگٹے کھڑا کردینے والا انکشاف کیا کہ جب سے یہ ہسپتال جی پی پنتھ ہسپتال سونہ وار سے پانچ سو بستروں والے امراض اطفال ہسپتال بمنہ کیاگیا،ان آٹھ ماہ میں610بچے اس ہسپتال میں فوت ہوچکے ہیںجس کا مطلب یہ ہے کہ ہسپتال میں ماہانہ اوسطاً76بچوںکی موت ہوتی ہے اور یوں روزانہ دو سے زائد بچوں کی موت واقع ہونا اس ہسپتال میںکوئی نئی بات نہیں رہی ہے ۔اس بات سے انکا ر نہیں کہ ہسپتالوںمیں مریضوںکا مرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور بہت سارے مریض جانبر نہ ہوکر فوت ہوجاتے ہیں لیکن عمومی طورپر ہسپتالوں کو شفاخانہ کہاجاتا ہے جہاں مریض مرنے کیلئے نہیں بلکہ ٹھیک ہونے کیلئے جاتے ہیں۔جہاں تک چلڈرن ہسپتال کا تعلق ہے تو اس میں بھی بچوں کی اموات کوئی غیر فطری رجحان نہیںہے لیکن اموات کی شرح یقینی طورپر پریشان کن ہے اور اس سے ارباب بست و کشاد کی نیندیں اچٹ جانی چاہئیں۔
عام لوگوں کی طرح ہم بھی سمجھے تھے کہ شاید یہ اموات فطری ہیں اور زیادہ بیمار ہونے کی وجہ سے بچے فوت ہوگئے ہونگے لیکن کل یعنی جمعہ کو کشمیر عظمیٰ کے صفحہ اول پر ہی پہلی سٹوری کے فالو اپ میں اب جو دوسری سٹوری شائع ہوچکی ہے ،وہ ان اموات کی وجہ سمجھنے کیلئے کافی ہے اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت اس ہسپتال کے تئیں اتنی سنجیدہ نہیں ہے ۔ہسپتال کے تئیں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میڈیکل کونسل آف انڈیا کے ضوابط کے مطابق ہسپتال میں قائم ہر شعبہ میںمریضوں کے علاج و معالجہ کیلئے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی ہمہ وقت موجودگی لازمی قرار دی گئی ہے لیکن اس انتہائی اہم بچوں کے ہسپتال کا حال دیکھیں کہ یہاں ہسپتال میں قائم کل14شعبہ جات میں سے 7شعبے بالکل ہی خالی ہے جہاں کوئی فیکلٹی ممبر تعینات ہی نہیں ہے اور وہ سب شعبے اللہ بھروسے ہیں۔بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان 14شعبوں کیلئے منظو ر شدہ 56فیکلٹی اسامیوں میں سے 42خالی پڑی ہیں جبکہ صرف14فیکلٹی ممبران سارے ہسپتال کا نظام چلارہے ہیں۔شاید آج سوچ رہے ہونگے کہ فیکلٹی ممبران سے کیا مراد ہے تو فیکلٹی ممبران سے مراد پروفیسر ،ایسو سی ایٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر ہیں جو نہ صرف متعلقہ شعبوں کا تدریسی نظام چلاتے ہیں جبکہ سینئر ہونے کی حیثیت سے اپنے ماتحت ڈاکٹروں کی نگرانی بھی کرتے ہیں اور عمومی طور پر انہی کی نگرانی میں زیر علاج بچوں کیلئے علاج اور ادویات تجویز کی جاتی ہیں ۔جب پورے ہسپتال میں صرف ایسے14ہی سینئر ماہرین امراض اطفال میسر ہوں تو بچوں کا کیسے ہورہا ہوگا ،سمجھ سے بالاتر نہیں ہے۔حد یہ ہے کہ 13شعبے ماہر ڈاکٹروں سے خالی ہیں اور کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں معالجین کی شدید قلت پائی جارہی ہے ۔جب ہسپتال کی یہ حالت ہو تو بھلا بچوں کا علاج کیسے ہوگا۔یہ صورتحال دیکھ کر اب اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ ہسپتال میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی اموات کیوں ہورہی ہیں کیونکہ ہسپتال کا طبی نگہداشت کا ڈھانچہ اصل میں خستہ حالی میں ہے اور جب خود ہسپتال ہی بیمار ہو تو اس میں داخل بیماروںکا علاج کیسے ممکن ہوگا۔گوکہ ہسپتال کے حال میں تعینات کئے گئے نئے منتظم کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ وہ بہت اچھے منتظم ہیں اور ہسپتال کا نظام چلانا اچھی طرح سے جانتے ہیں تاہم جب ہسپتال کے کسی شعبہ کی حالت بہتر نہ ہو تو اچھے سے اچھے منتظم کیلئے بھی ایسے ہسپتال کو فوری طور پٹری پر لانا ممکن نہیں ہے تاہم اگر چاہ ہوگی اور متواتر دن رات کام کیاجائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ہسپتال حقیقی معنوں میں پھر شفاخانہ بن جائے ۔نئے منتظم سے یہ توقع ہے کہ وہ روایتی دفتری اور سرکاری طریقہ کار سے آگے نکل کر اختراعی اقدامات کریں گے اور حکومت کے سامنے ہسپتال کو درکا ر عملہ و ڈھانچہ کی دستیابی فوری طور بلا تاخیر یقینی بنانے کیلئے بھرپور وکالت کریںگے ۔اگر وہ اس عمل میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اُنہیں ایک اچھے اور عوام کے غم خوار منتظم کے طور یاد رکھا جائے گا لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور فقط اپنی نوکری کرنے تک ہی محدود رہے تو تاریخ میںانہیں بھی ایک ایسے منتظم کے طور یاد رکھاجائے گاجس کو مریضوں کی جان سے زیادہ اپنے مراعات کی فکر تھی تاہم امید ہے کہ موجودہ منتظم اس صف میں شامل نہیں ہونا چاہیں گے کیونکہ ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ معاملات حل کرنے کیلئے دفتری اور رسمی خانہ پری سے آگے نکل کر سوچتے اور عملی طور کام بھی کرتے ہیں۔