بچے قوم کی اُمید اور مستقبل کے روشن چراغ ہوتے ہیں ، آج بچپن کی دہلیز پار کر کے یہی بچے کل جوان ہوتے ہیں ۔کسی بھی قوم و ملک کے عروج و زوال کا انحصار اسی نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔اگر یہ نوجوان تعلیم یافتہ ہوں تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے اور اگر یہ اَن پڑھ یا جاہل ہوں تو اس میں دورائے نہیں کہ قوم زوال کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر مستقبل کو روشن و تابناک بنانا ہے تو بچوں (قوم و ملک کے سارے بچے اور بچیاں) کو تعلیم کے نور سے منور کرنا ضروری ہے۔ تب جا کر یہی نسل کل کو ہماری قوم کو عروج و بلندی عطا کرنے میں اہم رول ادا کرسکنے کے قابل ہو سکیں گے۔
عصر حاضر کی صورت حال پر جب ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اتنی زیادہ تعمیر و ترقی کے باوجود بچہ مزدوری کا پھیلتا ہوا رواج دیکھنے کو ملتا ہے ۔سب سے زیادہ بچہ مزدوری دنیا کے پسماندہ ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے جن میں ہندوستان سر فہرست میں شامل ہے، جہاں بچہ مزدوری کے رواج آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہندوستان ہی ہے جو دنیا میں اس وقت سب زیادہ ہتھیار درآمد کرتا ہے ۔ ہندوستان کی باقی ماندہ ریاستوں کی طرح دنیا کی خوب صورت ترین اور قدرتی وسائل سے مالا مال ارض کشمیر میں بھی بچہ مزدوری تھمنے کا نام نہیں لے پا رہی ہے جو کہ ایک تشویش ناک امر ہے ۔
بچہ مزدوری سے مراد بچوںکی مختلف مقامات پر مزدوری وغیرہ کرنا ہے ،جیسے ٹی سٹال، سڑکوں کی تعمیر، فیکٹریوں، کارخانوں، بلڈنگوں وغیرہ۔بچہ مزدوری بچوں کا بچپن اُن سے چھین لیتی ہے اور بجائے ایک تعلیم گاہ کے وہ کارخانوں، فیکٹریوں،بلڈنگوں اور سڑکوںپرمحنت و مشقت کرتے ہیں اور اس طرح وہ تعلیم کے قیمتی جوہر سے محروم ہو جاتے ہیں،اور جس کی وجہ سے بچے کم سنی کی عمر میں ہی مختلف دماغی ،جسمانی ، سماجی ،اور اخلاقی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ تعلیم حاصل کرنا ہر بچہ کا بنیادی حق ہے،یہ حق اسلام کے ساتھ ساتھ دنیا کے باقی مذاہب نے بھی ان کو دیا ہے ، ان سے یہ حق چھیننا حق تلفی کی بد ترین مثال ہے ۔
جہاں تک وادی ٔکشمیر کا تعلق ہے یہاں پر بچہ مزدوری کی کئی وجوہات میں تین سب سے بڑی وجوہات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک یہ کہ بچوں سے زور زبر دستی کام کرایا جاتا ہے،دوسری وجہ یہ کہ بچوں کو غریبی و مفلسی کی وجہ سے مزدوری کرنی پڑتی ہے اور تیسری وجہ بچے تعلیم میں دلچسپی نہ لے کر خود اپنی مرضی سے مزدوری کرنے کا راستہ چن لیتے ہیں۔ان تینوں وجوہات میں بچوں کی غریبی و مفلسی ایک اہم وجہ ہے جو بچوں کو مزدوری کرنے پر مجبورکرتی ہے ۔غربت کے تدارک اور روزی روٹی کمانے کے لئے بچے ـمزدوری کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔یہ تو ایک عمومی وجہ ہے جس جانب ہر ایک ذی حس و صاحب عقل انسان کی توجہ جاتی ہے ۔بچہ مزدوری کی دو اور اقسام ہیں جس کی جانب توجہ کم ہی مبذول ہوتی ہے جن میں ہمارے پری پرائیمری(Pre primary)اسکول ہیں جہاں سے بچوں سے تعلیم کے نام پر مزدوری کروائی جاتی ہے ۔ اور دوسری وجہ تعلیم کا مہنگا ہونا جس کی وجہ سے بچے مزدوری کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔بچے کی پیدایش کے بعد اس کو آزاد ماحول کی ضرورت پڑتی ہے ،ایک بچہ کی پری اسکولنگ کے لئے اس کا گھر اس کی ماں ہی بہترین اسکول اور ٹیچرہے جہاں بچہ کسی بھی دبائو کے بغیر سیکھتا ہے ۔اسی لئے حکومت نے بھی ایک بچے کے لئے اسکول میں داخلہ کی عمر پانچ سال مقرر کی ہے ۔پانچ سال تک ایک بچہ اپنے گھر میں اپنی ماں سے ہی سیکھ حاصل کرتا ہے اور بڑی تیزی سے ذہنی اور جسمانی طور آگے بڑھتا ہے ۔مگر کشمیر میں اس کے بر عکس ہورہا ہے، یہاں پربچے کی پیدایش کے ڈھائی تین سال بعد ہی پری اسکولنگ کے لئے داخلہ کرایا جاتا ہے جہاں اُسے مصنوعی مائوں کے ذریعے تربیت کی جاتی ہے اور زور زبردستی بچوں کوخوش رکھا جا تا ہے۔مگر اصل میںیہ اسکول بچوں کے جیل خانے اور تعلیم کے نام پر مزدوری کے مراکز بن کر رہ گئے ہیں۔ جہاں ان معصوموں کو اگرچہ تعلیم کے نام پرداخلہ کرایا جاتا ہے اور ان کو غیر فطری طریقے سے نامنہاد تعلیم دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دبائو کا شکار ہو کر ذہنی اور جسمانی ترقی نہیں کرپاتے۔ جہاں ان بچوںکی پری اسکولنگ ہوتی ہے، وہاں انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ کہ جیسے ان کو گھر سے زبردستی اُٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا ہو۔ ظاہری طور پر ان اسکولوں میں بچوں کے لئے کھلونوں اوردیگر چیزوں کو سجایا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ اسکول بچوں کے لئے تعذیب خانے ہی بن جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اُس وقت ماں کی ممتا کی ضرورت ہوتی ہے ،مگر صد افسوس تعلیم کے نام پر ان اسکولوں کے ذریعے سے صرف یہ اسکول والے موٹی موٹی رقمیں ہی وصول کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اسی طرح سے ہمارے پرائیوٹ اسکولوں میں فیس کے نام پر لاکھوں روپے والدین سے لئے جاتے ہیں، وردیاں ،جوتے اور کتابیں تک اسکولوں کے منتظمین فراہم کرتے ہیں جس میں بچوں کے والدین کو سہولت نہیں بلکہ اپنا یہ کاروبار بھی مضبوط قائم ہو جاتا ہے جو آج کے دور میں ایک اچھی خاصی تجارت مانی جاتی ہے۔ عوام کا پرائیوٹ اسکول میں اپنے بچوں کا داخلہ کرانے کی اصل وجہ گورنمٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار کم ہونا ہے۔اور والدین قرضہ لے کر اپنے بچوں کو پرائویٹ اسکولوں میں داخل کراتا ہے اب جو پرائیویٹ اسکول کی فیس ادا نہیں کر پاتے وہ اپنے بچوں کو مزدوری ہی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔کیوں کہ سرکاری سکولوں میں ایسا انتظام نہیں کہ وہ وہاںجاکر تعلیم حاصل کر سکیں۔
اس سلسلے میں والدین کو چائے کہ وہ چار سے پانچ سال تک بچوںکی پری اسکولنگ گھر میں ہی کرائیں، تا کہ بچہ آزادی کے ساتھ بغیرکسی دبائو کے اپنے ہی گھر میں بُنیادی باتیں سیکھ جائیں۔ اور جب بچہ چار سال کے بعد اسکول میں داخل ہوگا تو اس کے ذہن میں پختگی آئی ہو گی تب جا کر وہ ذہنی دبائو سے نکل کر آزادی سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی کرسیوں پر براجمان عہدہ داروں کو چاہیے کہ وہ سرکاری اسکولوں کی طرف دھیان دیں وہاں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جاسکے، تا کہ گورنمٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بھی پرائیوٹ اسکول کے بچوں کے برابر اپنی صلاحتوں کو نکھار سکیں ۔الغرض بچہ مزدوری صرف یہی نہیں کہ کسی نے اسکول جانا ترک کر دیا ہو اور پھر کسی چائے کی دکان یا کسی کارخانے میں کا م کرتا رہے بلکہ بچہ مزدوری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے نام پر بڑے بڑے دستے ان کے کاندھو ںپر لٹکائیں اور وقت سے پہلے ہی زبردستی (جبری اسکولوں) میں بھیج دیں، یہ بھی بچہ مزدوری کی ہی ایک نئی قسم ہے جس کی جانب والدین کو اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔تب جا کر ہمارے سماج میں بچے جسمانی اور ذہنی طور قوی ہوںگے اور ہمارے معاشرے کو بچہ مزدوری کے اس ناسو ر سے نجات مل سکے گی۔
رابطہ۔9906664012