پرویز احمد
سرینگر //پوری دنیا کے ساتھ ساتھ آج جموں و کشمیر میں بھی بچہ مزدوری کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور امسال بچہ مزدوری کے عالمی دن کے موقع پر’’ سب کیلئے سماجی انصاف، بچہ مزدوری کا خاتمہ‘‘ کے موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ پوری دنیا میں بچہ مزدوری کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور بچہ مزدوری کا خاتمہ ہوسکے ۔ تکنیکی لحاظ سے، کوئی بھی ملازمت جو چودہ سال سے کم عمر کے بچے کے ذریعہ مالی شرائط پر کی جاتی ہے، چائلڈ لیبر کہا جاتا ہے۔کشمیر میں، سال 2011 میں روزگار میں مصروف بچوں کی تعداد 25,528 ریکارڈ کی گئی تھی جو اس سے 10سال قبل 2001میں 4.51فیصد کم تھی۔یونیسف(UNICEF) کی سال 2021کی رپورٹ کے مطابق 160ملین بچے پوری دنیا میں مزدوری کررہے ہیں اور جموں و کشمیر میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق کشمیر صوبے میں 25ہزار سے زائد بچے مختلف کارخانوں، صنعتی یونٹوں، ہوٹلوں ، رستوران اور دیگر جگہوں پر کام کررہے ہیں۔ سال 2022میں کی گئی سروے میں کہا گیا ہے کہ 2025تک جموں و کشمیر میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد 64ہزار 260تک پہنچ جائے گی۔
اس طرح پورے ملک میں جموں و کشمیر بچہ مزدوری کے معاملہ میں آبادی کے اوسط سے تیسری پوزیشن پر پہنچ جائے گا۔ 2022کے آخر میں بچوں کے معاملات پر کام کرنے والی دلی کی ایک رضا کار تنظیم ’’کیلاش ستہ یارتھی چلڈرن پاپولیشن‘‘ نے اپنی رپورٹ’ بھارت کہاں تک پائیدار ترقی کا ہدف حاصل کرنے کے پیش نظربچہ مزدوری ختم کرنے سے دور ہے‘میں لکھا ہے کہ مرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر میں کوششوں کے باوجود بھی بچہ مزدوری میں اضافہ ہورہا ہے جو بچوں کی نشوو نما اور جسمانی ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اسوقت بچہ مزدوری کے معاملات میں ریاستوں میں 30فیصد کے ساتھ اتر پردیش پہلے، 12فیصد کے ساتھ بہار دوسرے ، 8فیصد کے ساتھ مہاراشٹر تیسری اور 6فیصد کے ساتھ راجستھان چوتھی پوزیشن پر ہے۔ تنظیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 5سے 14سال کی عمر میں بچہ مزدوری میں جموں و کشمیر مزید 2سال بعد یعنی سال 2025میں پورے ملک میں آبادی کے اوسط کے حساب سے تیسرے نمبر پر آجائیگی۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ہندوستان میں 5 سے 14 سال کی عمر کے نوعمر مزدوروں کی کل تعداد مجموعی طور پر 22.87 ملین ہے۔ 33 ملین کافی بڑے پیمانے پر کام کررہے ہیں۔ ہندوستان میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے کئی اسکیمیں، پالیسیاں اور حکمت عملی وضع کی گئی ہے جیسے پینسل پورٹل اور چائلڈ لیبرممنوعہ اور ضابطہ’ ایکٹ 1986، دی جوینائل جسٹس (کیئر اینڈ پروٹیکشن) چلڈرن ایکٹ، 2000) ، انڈین فیکٹریز ایکٹ، 1948 اور بہت سے دوسرے۔ مزید یہ کہ ہمارے آئین میں بچوں کی بہتری یا چائلڈ لیبر کے خلاف آرٹیکل 21A اور آرٹیکل 24 جیسے متعدد آرٹیکلز شامل ہیں۔پنسل پورٹل کو وزارت محنت اور روزگار نے 2017 میں شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد “بچوں کی مزدوری سے پاک ملک” ہے۔ اس پورٹل پر، اگر ہمیں چائلڈ لیبر کا کوئی کیس ملتا ہے تو ہم شکایات درج کر سکتے ہیں۔ چائلڈ لیبر(پرہیبیشن اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 1986 میں کہا گیا ہے کہ 14 سال سے کم عمر کا کوئی بھی بچہ کسی خطرناک پیشے میں کام کرنے پر سختی سے ممانعت ہے۔ جووینائل جسٹس(کیئر اینڈ پروٹیکشن)آف چلڈرن ایکٹ، 2000 میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فرد کسی بچے کو خطرناک کام پر لگاتا ہے یا اسے بندھوا مزدوری کے طور پر لیتا ہے تو اس قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔ انڈین فیکٹریز ایکٹ، 1948، کہتا ہے کہ 14 سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے کو فیکٹریوں میں ملازمت پر نہیں رکھا جانا چاہیے۔ اسی طرح( آرٹیکل 21A میںحق تعلیم کے تحت 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جانی چاہیے۔آرٹیکل 24 کی ممانعت فیکٹریوں وغیرہ میں بچوں کا روزگار (14 سال سے کم عمر کے بچوں کو کسی بھی خطرناک فیکٹریوں یا صنعتوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔لیکن اسکے باوجود بچہ مزدوروں میں کمی نہیں آئی ہے۔ لیبر یونین کے صدر بشیر احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ بے روز گاری کی وجہ سے بچہ مزدوری میں کافی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے‘‘۔بشیر احمد نے بتایا ’’ والدین کے بے روز گار ہونے کی وجہ سے بچے ہوٹلوں ، ڈھابوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اوران سب بچوں کی عمریں 10 اور 15سال کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ ان بچوں کو پڑھائیں لیکن گھریلو صورتحال کی وجہ سے وہ بچے مزدوری کررہے ہیں ۔ بشیر احمد نے بتایا کہ بچہ مزدوری میں ہر گزر تے دن کیساتھ اضافہ ہورہا ہے کیونکہ نہ تو لیبر اور ایمپلائمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور نہ ہی بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے ان کیلئے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی ہوٹلوں اور ڈھابوں سے بچوں کو بازیاب کیا، حتیٰ کہ بھیک مانگنے والے بچوں کو بھی باز آباد کاری مراکز میں رکھا لیکن بچہ مزدوری میں پھر بھی کافی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ محکمہ لیبر اینڈ ایمپلائنٹ کی سیکریٹری یحانہ بتول نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ مجھے اس بارے میں ابھی کوئی جانکاری نہیں ہے کیونکہ میں نے کچھ دن قبل ہی محکمہ کا چارج سنبھالا ہے‘‘۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر کوبچہ مزدوروں کی بحالی کیلئے 2021کے دوران 32.84کروڑ، 2017سے 2020میں کوئی بھی رقم وگذار نہیں کی گئی جبکہ سال2016میں 56.14لاکھ روپے واگذا ر کئے گئے ہیں۔