یو این آئی
نئی دہلی//بچہ مزدوری اور اسمگلنگ کے خلاف ایک بڑی کارروائی میں قومی انسانی حقوق کمیشن، خواتین اور بہبود اطفال کے محکمے ، پولیس اور غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ولنٹری ایکشن (اے وی اے ) نے مشترکہ طور پر رائے پور میں مشروم پروسیسنگ یونٹ پر چھاپہ مار کر 120 بچوں کو آزاد کرالیا۔ چار گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن میں 14 تا 17 سال کی عمر کے 80 لڑکیوں اور 40 لڑکوں کو بچہ مزدوری سے آزاد کرایا گیا جہاں انہیں رکھا گیا تھا اور انہیں انتہائی نامناسب حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ بچے بنیادی طور پر مغربی بنگال، اڈیشہ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور آسام کے قبائلی علاقوں سے تھے ۔ مقامی ایجنٹوں نے ان بچوں کو ان کی آبائی ریاستوں سے اسمگل کیا اور انہیں یہاں کام پر لگایا۔ ان بچوں میں سے کچھ، جن کی عمریں اب 17 سال ہیں، کو چھ سال قبل یہاں لایا گیا تھا اور تب سے وہ اسیری جیسے حالات کا شکار تھے ۔ غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ولنٹری ایکشن (اے وی اے ) نے قومی انسانی حقوق کمیشن کو مکتوب لکھ کر ان بچوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، جنہیں اس مشروم فیکٹری میں تقریباً بندھوا مزدوری کی طرح انتہائی غیر انسانی اور استحصالی حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اے وی اے نے کہا کہ ان بچوں کا شدید استحصال کیا جا رہا تھا، نقل و حرکت پر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں اور انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا جو کہ انسانی اسمگلنگ اور بندھوا مزدوری کے مترادف تھا۔ بازیاب کرائے گئے بچوں نے بتایا کہ فیکٹری کے اندر چھوٹے ، تاریک کمروں میں رکھا جاتا ہے ، انہیں دن میں 12-15 گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور رات کو کبھی کبھار ہی کھانا دیا جاتا ہے ۔مختلف ایجنسیوں کی جانب سے تیز رفتار کارروائی کی تعریف کرتے ہوئے جسٹ رائٹس فار چلڈرن کے بانی بھوون ریبھو نے کہا، “کڑاکے کی سردی میں دن میں 12-15 گھنٹے کام کرنے والے بچے کی حالت زار کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اسمگلنگ جیسے منظم جرائم کا سب سے خوفناک چہرہ اوروکست بھارت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ رائے پور میں اس مشروم پروسیسنگ یونٹ سے اسمگلنگ کے شکار بچوں کو بچانے کے لیے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں اور ان بچوں کی بحالی کو یقینی بنانا چاہیے جو اس یونٹ میں بڑے پیمانے پر بچوں اور بندھوا مزدوری کا پتہ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔