یو این آئی
نئی دہلی//ملک میں بچوں کی حفاظت اوران کی بحالی کے لیے سول تنظیموں کے سب سے بڑے نیٹ ورک جسٹ رائٹس فار چلڈرن (جے آر سی)کے ملک بھر میں 250 سے زیادہ شراکت دار تنظیموں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مدد سے گزشتہ ایک سال میں ملک میں 38,388 چھاپے میں 53,651 بچہ مزدوروں کو آزاد کیا گیا۔ ان میں سے 90 فی صد بچے ایسے شعبوں میں کام کر رہے تھے جن کو حکومت ہنداور بین الاقوامی محنت تنظیمیں مزدوری کی سب سے بدترین شکل سمجھتی ہیں، ان میں اسپاس، مساج پارلر اور آرکسٹرا جیسی صنعتیں شامل ہیں جہاں بچوں کو جسم فروشی، چائلڈ پورنوگرافی یا جبری جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان حقائق کا انکشاف چائلڈ لیبر پر ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ چھاپوں کے ساتھ ساتھ تلنگانہ بھی بچوں کو مزدوری سے آزاد کرانے میں سرفہرست ہے۔ سال 2024-25 میں بچوں کو بچہ مزدوری سے آزاد کرانے میں تلنگانہ ملک میں سرفہرست رہا، جہاں 11,063 بچوں کو بچایا گیا، اس کے بعد بہار، راجستھان، اتر پردیش اور دہلی کا نمبر آتا ہے۔ بہار میں 3,974، راجستھان میں 3,847، اتر پردیش میں 3,804 اور دہلی میں 2,588 بچوں کو چائلڈ لیبر سے آزاد کیا گیا۔اس سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے جے آر سی کے قومی کنوینر روی کانت نے کہا کہ بچوں کی اتنی بڑی تعداد میں بچہ مزدوری کی سب سے قبیح شکل میں استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اور سول سوسائٹی کی تمام تر کوششوں کے باوجود، بچوں کو بچہ مزدوری سے آزاد کرنے کا ہمارا قومی عزم اب بھی نامکمل ہے۔ ہندوستان بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن 182 کا دستخط کنندہ ہے، یعنی بچوں کے خلاف تمام خطرناک معاہدوں کو ختم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے کا اظہار کیا گیا ہے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے ہندوستان اس سمت میں بامعنی کوششیں کر رہا ہے جس کے خوشگوار نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔انہوں مزیدنے کہاکہ اس رپورٹ نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ قانونی کارروائیاں لوگوں کے ذہنوں میں قانون کا خوف پیدا کرتی ہیں جو بچہ مزدوری کے خلاف روکاوٹ کا کام کرتی ہیں، بچوں سے انصاف اسی وقت ہو گا جو چائلڈ لیبر کی بدترین شکلوں کا شکار ہیں جب مجرموں کو سزا ملے گی اور متاثرین کے تحفظ اور بحالی کے مضبوط انتظامات ہوں گے۔ ان بچوں کو خود انحصار بنانے کے لیے بحالی کی جامع پالیسی پر کام کرنا چاہئے۔’بلڈنگ دی کیس فار زیرو: ہائوپراسیکیوشن ایکٹ بطور ٹپنگ پوائنٹ ٹو اینڈ چائلڈ لیبر’، انڈیا چائلڈ پروٹیکشن کے ریسرچ ڈویژن، سینٹر فار لیگل ایکشن اینڈ بیہیوئیر چینج (C-Lab) کے ذریعے تیار کردہ اس رپورٹ میں کئی سفارشات بھی کی گئی ہیں، خاص طور پر بچہ مزدوریکے خاتمے کے لیے قانونی اقدامات، تعلیم اور بحالی پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جب تک مجرموں کے خلاف سخت اور فوری قانونی کارروائی نہیں کی جاتی، بچہ مزدوری کو روکنا مشکل ہے۔ رپورٹ میں پالیسی میں مجموعی تبدیلیوں، سرکاری خریداری میں بچہ مزدوری کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی، خطرناک صنعتوں کی فہرست میں توسیع، ریاستوں کو ان کی مخصوص ضروریات کے مطابق پالیسیاں بنانے کے قابل بنانے، بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف 8.7 کی آخری تاریخ کو 2030 تک بڑھانے اور ان کے خلاف سخت اور فوری قانونی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔