محمد عبداللہ شاہ
جسٹس گپتا کی بیوی نرملا کئی دنوں سے کھانس رہی تھی۔ اُسکو تھوڑا سا بخار بھی رہتا تھا اور بھوک بھی کم لگتی تھی۔ گھر کے افرادِ خانہ، بشمول نوکر چاکر اسکو عام حالت تصور کررہے تھے مگر نرملا کی کھانسی اب خشک ہونے کے ساتھ ساتھ تھکن،کمزوری اور سانس پھولنے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
اُنکا پالتو کتا ٹائیگر بھی کچھ کچھ بیمار دکھ رہا تھا، اُس کی کھانسی بھی نرملا جی کی طرح زور پکڑ رہی تھی۔ وہ روز بہ روز کمزور ہورہا تھا۔ نہ ہی وہ گھومنے پھرنے کے لئے باہر جانے کو تیار ہوتا اور نہ ہی پڑوسی کتوں کو بھگانے میں کوئی دلچسپی دکھا رہا تھا۔
دن یوںہی گزرتے گئے۔ ایک دن جسٹس گپتا بہت تھکے ہوئے مایوس سے گھر لوٹے۔ بیوی نے وجہ پوچھی تو آفس میں زیادہ کام کا بہانہ کرکے ٹال گئے۔ آخر اُنکی بڑی بیٹی نے پاپا کو وجہ بتانے کی ضد کی تو وہ اُسکو ماں کی صحت کے بارے میں کہہ گیا کہ اسکی ماں کو پھپھڑے کا کینسر ہوگیاہے۔ وہ سب پریشان ہو اُٹھے۔ اسی دوران نوکروں نے بھی یہ خبر سن لی۔ سب نرملا جی کی خدمت میں لگ گئے اور بہتر سے بہتر علاج کرنے کی جستجو میں لگ گئے۔ نوکر کہنے لگے کہ اس بیماری سے تو صرف غریب لوگ ہی مرتے ہیں۔
جسٹس گپتا کی نیند حرام ہوگئی تھی۔ اُن کا کتا بھی دن بہ دن لاغر ہوتا جارہا تھا۔ اُسے جب مویشیوں کے ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو اسکو بھی پھپھڑے کے کینسر کی تشخیص ہوگئی۔
ایک روز نرملا جی، اچانک بے ہوش ہوگئیں، نوکر کہنے لگے کہ امیر آدمی اس بیماری کا شکار نہیں ہوتے۔ مگر نرملا جی چل بسیں اور اسکے کچھ دن بعد ہی اُنکا کتا بھی مر گیا۔ یہ دونوں اپنے اپنوں سے بچھڑ گئے او ر خاندان والے اپنے پیاروں سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے۔
دونوں نہ ہی شراب پیتے تھے اور نہی ہی سیگریٹ وغیرہ مگر پھر بھی اپنے اپنوں سے الگ ہوگئے۔
زمانہ قدیم سے یہی تو ہوتا آرہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا، لوگ اپنوں کی یاد مناتے آرہے ہیں اور آگے بھی مناتے رہیں گے۔
���
انچی ڈورہ اننت ناگ، موبائل نمبر؛9419007157