شیخ ولی محمد
بچے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور تمناؤ ں و آرزؤں کا مرکز ہوتے ہیں ۔ اگر صحیح خطوط پر بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی جائے تویہ نہ صرف دنیا میں والدین کا سہارا بلکہ آخرت میں بھی ان کے لئے توشہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ماہرین طبّ اور ماہرین تعلیم کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت اس طرح کی جائے کہ ذ ہنی اور اخلاقی نشو و نما ء کے ساتھ ساتھ وہ جسمانی طور پر بھی فٹ Fitہوں ۔ لیکن بدقسمتی سے اس مسابقتی دور اور مادی دوڑدھوپ میں بچے کی ہمہ جہتی نشو نماء اور ترقی کے بجائے اسکی ذہنی تربیت ہی محور و مرکز بن چکی ہےاور عملی طور پر ذہنی اور دماغی نشو و نما ء اور ترقی کی خاطر والدین اور اساتذہ بچوں کو غیر فطری طریقوں کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ معصوم بچے اب مختلف قسم کی بو جھوں تلے دب چکے ہیں جسکی وجہ سے ان کی صحت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔بھاری سکول بیگ کے بوجھ نے ہمارے معصوم بچوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔مقامی سطح سے لے کر ملکی سطح تک ہر جگہ بچے اپنے معصوم اور نازک کندھوں پر اسکول بیگ کا بھاری بوجھ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ زندگی کا سب سے پُر لطف اور حسین دور انسان کا ’’ بچپن ‘‘ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کیلئے ایک بہترین عطیہ اورتحفہ ہے لیکن یہی بہترین تحفہ اب بچے کی جسمانی مشقت میں صرف ہوتا ہے ۔ صبح سویرے ہمارے آدھے سوئے آدھے جاگے ہوئے بچے اسکول کا رخ کرتے ہیں اور واپسی پر کڑ ی دھوپ میں تھکے ماندے بھاری بستوں کو اٹھا ئے ہوئے یہ معصوم بچے ایسے مظلوم دکھائے دیتے ہیں کہ گھر پہنچتے ہی دور سے بھاری بیگ کو پھینک دیتے ہیں ۔
ایسوی اسٹیڈ چیمبر آف کامرس اینڈ اینڈ سٹریز آف انڈیا Associated of Chamber of Commerce and Industries of India نے ہندوستان کے کئی بڑے شہروں میں ایک سروےSurveyکی، یہ سروے2500بچوں اور 1000والدین پر کی گئی۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق 7سال سے لے کر 13سال تک کی عمر کے 88فیصد بچے ایسے پائے گئے جو اپنے جسم کے وزن سے45فیصد زیادہ وزن اُٹھا تے ہیں ۔ بھاری بوجھ کے جو منفی اثرات ان بچوں پر پڑے ہیں ان میں 68فیصد بچے ہلکی کمر درد کے شکار ہوچکے تھے ۔ بھاری اسکول کے بیگ کی بیماریاں فوری طور پر واضح نہیں ہوسکتی لیکن ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچوں کے جسمانی بوجھ کے علاوہ ان کے اعصابی نظام Nervous Systemپر منفی اثرات مرتکب ہوسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر رامنیک مہاجن کے مطابق بھاری اسکول بیگ ریڈھ کی ہڈی کی خرابی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ اضافی وزن پٹھوں ، جوڑوںاور ڈسکوں پر غیر معمولی دباؤ ڈالتا ہے اور ان کو نقصان پہنچا تا ہے ۔ بھاری وزن کو اُٹھا نے کے لئے بچوں کو جھکنا پڑتا ہے۔ طویل عرصے میں ان میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے جو اعصابی نظام پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ بھارتی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایک اور Study/مطالعہ میں انکشاف کیا ہے کہ بھاری بیگیں مستقل معذوری کا سبب بن سکتے ہیں ۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے Social and Preventive Medicine(SPM)Deptt.ڈیپارنمنٹ کی طرف سے کی گئی سروے میں پایا گیا کہ ریاست کے83.7فیصد اسکولی بچے ایسے تھے جو اپنے جسم کے وزن سے 10فیصد سے زیادہ وزنی بیگ اُٹھا تے تھے۔ ان وزنی بیگوں کے مُضر اثرات کے نتائج کے بارے میں سروے رپورٹ میں بتا یا گیا کہ50فیصد سے زیادہ بچوں نے کمر درد کی شکایت کی ۔ امریکن ایسوسی ایشن آف نیو رولو جیکل سرجنز Americian Association of Neurological Surgeonsکے مطابق اس وقت 75فیصد سے85فیصد لوگ کسی نہ کسی حصے میں کمردرد کی تکالیف کے شکار ہوتے ہیں ۔ کمردرد کی بنیادی وجہ استعداد سے زیادہ وزن اُٹھانا ہے جسکی شروعات کم عمری سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اسکولی بچے اس وقت اپنی استعداد سے بہت وزن اُٹھا رہے ہیں ـ۔
بھاری بستے کی سب سے بڑی وجہ بچے کے لئے لمبا جوڑا سیلبس ہے ۔ اگر صرف پرائمری کلاسوں کے کتابوں کی بات کی جائے تو پرائمری کلاسوں میں کم سے کم 10 درسی کتابوں کے ساتھ کا پیاں ، اسٹیشنری ، لینچ بکس اور پانی کی بوتل وغیرہ ہوتی ہیں ۔ عملی طور ہمارے ہاں ایسا تعلیمی نظام رائج ہے کہ روزانہ بچے کو اسکول میں نصاب کی ساری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور بعد میں اساتذہ اپنے اپنے مضمون کیلئے بچے کو ہوم ورکHome Workتفویض کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف چھٹی کے بعد بھی بچہ ہوم ورک کے بوجھ کے تلے دب جاتا ہے اور دوسری طرف اسے ہر روز ہوم ورک اور تمام کتابوں کے ساتھ اسکول جانا پڑتا ہے ۔ وزارت انسانی وسائل وترقیMinistry of Human Resources & Development جو کہ اب وزارت تعلیم بن چکی ہے کی طرف سے کی گئی نیشنل اچیومنٹ سروے 2018 National Achievement Survey میں یہ نتائج سامنے آگئے کہ بچے کی صلاحیت کو جانچنے اور پر کھنے کیلئے اس وقت ہندوستان کے 74.3 فیصد اساتذہ بچے کی Home Workہوم ورک کے Toolکو استعمال کرتے ہیں ۔اعداد و شمار کے مطابق فقط 24.3%اساتذہ بچوں کو جانچنے کیلئے پر وجیکٹ بیسڈ لرننگProject – based or Experiential Learningکو عملاتے ہیں ۔ سنٹر فار چایلڈ اینڈلاایٹ نیشنل لااسکول آف انڈیا یونیورسٹیCentre for Child and Law at National Law School of India University ( NLSIU ) کے ویز ٹنگ پروفیسر نیر اجن آرھادیہProf. Nirajan Aaradhya سروے کے اعداد و شمارکو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں’’ بنیادی وجہ یہ ہے کہNational Curriculum Framework (NCF)کی تعلیم سے متعلق مختلف پہلوؤں کو عملانے کاکوئی خاطر خواہ منصوبہ نہیں ہے ۔بچے کے ہاں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے پروجیکٹ بیسڈProject Basedتعلیم اپنا نے کی ضرورت ہے ‘‘۔ پروفیسر نیر اجن آدھاریہ کا مزید کہنا ہے کہ بچے کو ایسی تعلیم دینے کے لئے 30منٹ کا پیریڈ Periodکا فی نہیں ہے۔ بھاری بوجھ کے مُضر اثرات سے چھٹکارا پانے کیلئے اور طبی ماہرین کی شفارش کردہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے حکومتی سطح پر چلڈرنز سکول بیگس ایکٹChildren’s School Bags Act 2006کے قانون کا نِفاد عمل میں لایا گیا ۔اس ایکٹ کے تحت اسکول بیگ کا وزن بچے کے جسم کے وزن سے10%سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ۔
رواں تعلیمی سیشن کے آغاز ہی میں حکومتی سطح پر سکول ایجوکیشن محکمہ کی طرف سے سکول بیگ پالیسی 2020کی روشنی میں 7اپریل 2023 کو ایک سرکیولر جاری کرتے ہوئے یہ ہدایات دے گئے کہ ابتدائی کلاسوں میں درسی کتابوں کی تعداد کم کی جائے ۔ اب پری پرائمیری ( نرسری ، ایل کے جی اور یو کے جی ) کلاسوں کے لئے کوئی درس کتاب نہیں ہوگی ۔ ان کلاسوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دو نوٹ بکس /ورک بکس جو کلاس ٹیچر کے پاس ہونگی ۔ جبکہ ان معصوم بچوں کو سکول بیگ کے بھاری وزن سے مستثنٰی رکھا گیا ہے سوائے ہلکا بیگ جس میں بچے کا لنچ بکس ہو۔ سرکیولر کے مطابق اب پہلی دوسری اور تیسری پرائمری کلاس کے لئے صرف حسابMathاور زبان Language کی کتاب ہوگی جبکہ چوتھی اور پانچویں جماعت کے لئے ۱۔Math حساب ، ۲۔ زبان Language اور ۳۔ ماحولیاتی سائنسEnvironment Scienceکی کتاب ہونی چاہئے ۔ چھٹی اور ساتویں جماعت کے لئے ان کتابوں کے علاوہ سوشل سائنس ہوگا ۔ متعلقہ محکمہ نے مزیدہدایات جاری کرتے ہوئے کہاکہ پہلی اور دوسری جماعت کے بچے کے بیگ کا وزن 1.5کلو گرام سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ۔ جبکہ تیسری سے پانچویں جماعت تک کے بچے کے اسکول بیگ کا وزن 3کلو گرام سے زیادہ نہ ہو ۔ اسی طرح چھٹی اور ساتویں جماعت کا بیگ4کلو گرام سے زیادہ نہیں جبکہ آٹھویں اور نویں جماعت کے بچے کے بیگ کا وزن 5کلو گرام سے زیادہ نہیں اور دسویں جماعت کے بچے کے بیگ کا وزن 5.5کلو گرام سے زیادہ نہیں ہو نا چاہئے ۔ یہ احکامات اسی صورت میں قابل عمل ہیں جب سیکنڈری سطح تک کا سیلبس کم کیا جائے ۔ اگر عالمی سطح پر نظر دوڑ ائی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ ایک لمبا چوڑا نصاب اور کتابوںکی ایک بڑی تعداد معیاری تعلیم کے لئے مناسب اور موزوں نہیںہے ۔ اس وقت معیاری تعلیم Quality Educationکے حوالے سے دنیا میں فن لینڈFinland سر فہرست ہے لیکن وہاں کے بچے کو7برس عمر مکمل کر نے کے بعد ہی اسکول میں داخلہ ملتا ہے ۔ جبکہ 7سال سے 14سال تک کوئی امتحان Testنہیں ہوتا ہے۔ اس طرح بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا ذہن اور دماغ نشو و نماء اور ترقی پاتا ہے اور وہ خود بخود بھاری بیگوں کے بوجھ سے بچ جاتے ہیں ۔ان سرکاری احکامات کو عملانے سے بچوں کو بیگ کے بھاری بوجھ سے نجات مل سکتی ہے تاہم اس کے علاہ اگر سکولی سطح پر ان تجویز پر عمل کیا جائے تو کافی حد تک یہ بوجھ کم ہوسکتا ہے :
۱۔اسکول کے نظام الاوقاتTime Tableمیں تبدیلی لانی چاہئے ۔ اگر کسی جماعت میں 8مضامین ہیں تو ٹائم ٹیبل اس طرح ترتیب دیا جائے کہ 8مضامین کے بجائے باری باری سہ روز ہ یا ہفتہ وار4تا 5مضامین ہی پڑھائیں جائے ۔ اسے فائدہ یہ ہوگا کہ آدھے گھنٹے کے بجائے ایک گھنٹہ کا Periodبن جائے گا۔ اور اس طرح لمبے Period میں بچوں کو سبق کے بارے میں مکمل تصوراتConceptsذہن میں آجائیں گے اور اسی Period کے دوران بچے استاد کی نگرانی میںHome Workیا پروجیکٹ ورک انجام دیں گے۔ اس طرح روزانہ بچوں کے بیگ کا وزن بہت حد تک کم ہو جائے گا۔
۲۔درسی کتابوں اور نوٹ بکس کا میٹرئیل کاغذ ، بائینڈنگ وغیرہ وزن کے لحاظ سے ھلکا ہو۔
۳۔مختلف یونیٹس اور ٹیسٹ / امتحانات کے لئے الگ الگ کتابوں کے بجائے ان کتابوں کے مقرر کیے ابوابChapters ایک ہی کتاب میں ہوں ۔ اس طرح ہر یونٹ یا سمسٹر کے لئے پانچ چھ کتابوں کے بجائے ایک ہی کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ کشمیر کے کئی اسکولوں میں اس طرح کی کتابیں رائج ہیں ۔
۴۔اسکول میں بچوں کے لئے لاکرس Lockersاور کیبنCabinکا انتظام ہو جسمیں بچے اپنی کتابیں اور کاپیاں رکھ سکیں ۔ اس طرح وہ کتابوں کو گھر سے لانے اور لے جانے سے بچ جائیںگے ۔
۵۔کلاس کے بچے اپنے من پسند ہم جماعتیوں کے گروپ بنائیں جو دو یا تین لڑکوں پر مشتمل ہو۔ اس طرح گروپ کا ایک لڑکا ایک کتاب اور دوسرا لڑکا دوسری کتاب روزانہ لاسکے ۔ اس طرح دو یا تین کتاب بیگوں کی جگہ ایک ہی کتاب بیگ لے گا۔
۶۔اسکول بیگ کے وزن میں بچے کے کھانے پینے کی چیزیں بھی اضافہ کر دیتی ہیں ۔ اس حوالے سے والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو صبح کے وقتHeavy Break FastاورLunchکے لئے انھیں ہلکا کھانا ساتھ دیں ۔بھاری ناشتہ Heavy Breakfast صحت کے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ اسکول میں پینے کے پانی کے لئےWater Purifierکا مکمل انتظام رکھیں ۔ اس طرح بچوں کو Heavy Lunchاور پانی کی بوتلWater Bottlesجن کا وزن کم سے کم آدھا لیٹر ہوتا ہے کے بوجھ سے نجات مل جائے گی۔
۷۔بچے کے لئے آرام دہ اسکول بیگ کا انتخاب کریں ۔ استعمال کرتے وقت بچہ بیگ کے دونوں پٹوں کا استعمال کریں تاکہ کم وزن بھی بیک پیکBack pack پر تقسیم ہوسکے اور اس طرح بیگ کو استعمال کرتے ہوئے بچہ وزن کے توازن کو بر قرار رکھ سکیں ۔
۸۔اسکول سیلبس میں ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو جگہ دی جائے ۔
۹۔آج کے اس انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں بڑے بچوں کے لئے سمارٹ کلاس روم E- Learningقائم کرنے سے کتابوں کے بوجھ سے نجات مل سکتی ہے ۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)