مختار احمد قریشی
بچےکی شخصیت سازی اور ذہنی نشوونما براہ راست تعلیم و تربیت پر منحصر ہوتی ہے۔ ہر بچہ ایک منفرد ذہنی ساخت، جذباتی ردِعمل اور سیکھنے کے انداز کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، جسے سمجھنا ایک معلم کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی نفسیات کا مطالعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر عمر میں بچے کیسے سوچتے ہیں، کیا محسوس کرتے ہیں اور کس طرح کےماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک استاد اگر بچے کی ذہنی سطح اور نفسیاتی ضرورتوں کو سمجھے بغیر تعلیم دینے کی کوشش کرے تو سیکھنے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ مؤثر تدریسی طریقے انہی نفسیاتی اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں جو بچے کو دلچسپی، سرگرمی اور عمل کے ذریعے علم کی طرف مائل کرتے ہیں۔ بچوں کی فطری تجسس کو راہ دکھانا حقیقی تعلیم کہلاتی ہے۔ آج کے دور میں جہاں تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں، وہاں ایک معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کے اندر چھپے ہوئے امکانات کو پہچانے اور تدریسی انداز کو بچوں کی نفسیاتی ساخت کے مطابق ڈھالے۔ محبت، برداشت اور حوصلہ افزائی وہ بنیادیں ہیں جن پر کامیاب تعلیم کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ بچوں کی نفسیاتی حساسیت کو نظر انداز کرنا نہ صرف ان کے سیکھنے کے عمل کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی اور شخصیت پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ لہٰذا بچوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے جذبات، خیالات، دلچسپیوں اور خوف کو سمجھ کر ہی تدریسی عمل ترتیب دیں تاکہ سیکھنے کا ماحول خوشگوار، مفید اور دیرپا بن سکے۔
تعلیم کے میدان میں مؤثر تدریسی طریقوں کا تعلق براہ راست اس بات سے ہے کہ استاد بچے کی ذہنی کیفیت، جذباتی توازن اور تعلیمی رجحانات کو کس حد تک سمجھتا ہے۔ ہر بچہ الگ سوچتا ہے، کچھ بچے سوالات پوچھنے میں دل چسپی لیتے ہیں، کچھ مشاہدے سے سیکھتے ہیں تو کچھ تجربات سے۔ لہٰذا استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کے مختلف سیکھنے کے انداز (Learning Styles) جیسے سمعی، بصری، حرکی اور تخلیقی طریقوں کو پہچان کر مناسب تدریسی حکمت عملی اپنائے۔ اس کے علاوہ ایک مثبت اور غیر خوفزدہ تعلیمی ماحول بچے کی تعلیمی کارکردگی پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ جب بچے کو عزت دی جاتی ہے، اس کی بات سنی جاتی ہے اور اس کی غلطیوں کو سیکھنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے تو اس کا اعتماد بڑھتا ہے۔ نفسیاتی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ طلبہ جو خوف اور دباؤ کے بغیر سیکھتے ہیں، وہ طویل مدت تک معلومات کو یاد رکھتے ہیں اور تخلیقی انداز میں سوچنے لگتے ہیں۔ مؤثر تدریسی طریقوں میں کہانی سنانا، رول پلے، سرگرمی پر مبنی تعلیم، کھیل کے ذریعے سیکھنا اور تصویری مواد کا استعمال شامل ہے جو بچوں کے ذہن کو متحرک رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ استاد کی طرف سے مسلسل حوصلہ افزائی، بچوں کی ترقی کو سراہنا اور انفرادی توجہ دینا ایسے عناصر ہیں جو تدریس کو مؤثر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یاد رہے، سیکھنے کا عمل صرف تعلیمی نتائج تک محدود نہیں بلکہ بچے کی مکمل شخصیت کی نشوونما کا ذریعہ ہوتا ہے۔
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک کامیاب تدریسی عمل کا انحصار صرف نصاب کی تکمیل پر نہیں بلکہ اس امر پر ہوتا ہے کہ استاد بچے کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان کر اسے نکھارنے کی کتنی کوشش کرتا ہے۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھے بغیر اگر تعلیم دی جائے تو یہ عمل محض ایک مشینی عمل بن کر رہ جاتا ہے، جس میں نہ جذبہ ہوتا ہے نہ اثر۔ ایک اچھا معلم وہی ہوتا ہے جو بچوں کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کرے، ان کی نفسیاتی ضروریات کو سمجھ کر ان سے محبت، شفقت اور سمجھداری سے پیش آئے۔ بچوں کی فطری جستجو، سوالات کرنے کی عادت اور دنیا کو جاننے کی خواہش کو دبانے کے بجائے اگر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تو بچہ خود سے سیکھنے لگتا ہے، جو حقیقی کامیابی کی علامت ہے۔ آج کے جدید تعلیمی منظرنامے میں یہ ضروری ہے کہ اساتذہ نہ صرف تعلیمی علوم میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ بچوں کی ذہنی، جذباتی اور سماجی ترقی کو بھی پیش نظر رکھیں۔ تعلیم صرف ڈگری یا امتحانات کا نام نہیں بلکہ شخصیت سازی کا ایک مسلسل اور با معنی عمل ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم تدریس کو بچوں کے اندر سے پھوٹنے والے جذبۂ علم سے جوڑیں اور ان کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھ کر ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن ہو سکیں۔ یہی تعلیم کا اصل مقصد ہے – شخصیت کی تعمیر، شعور کی بیداری اور ایک
مہذب، پُرامن معاشرے کی تشکیل۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]