شیخ ولی محمد
تدریسی عمل کے دوران جس طرح جسمانی سزا اور ذہنی اذیت سے بچے کی پوری زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر تعلیم و تربیت کے دوران بچے کی حوصلہ شکنی کی جائے تو اس کے تعلیمی کیرئر پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں ۔ بچہ ہر قدم پر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے رہ جاتا ہے ۔ اُستاد اگر سکھانے کے دوران بچے کی معمولی غلطیوں کو اُجاگر کر کے جب اسکی حوصلہ شکی کریں تو اسے بچہ ایک عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے اس کی شخصیت کے بہت سارے پہلو متاثر ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر بچے کا حوصلہ بڑھا یا جائے، اسکی ہمت باندھی جائے ، اسکی دل دہی کی جائے ، اس کو ترغیب وتحریک دی جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔میڈیکل سائنس کے مطابق جب شیر خوار بچہ ابتدائی مرحلے پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی معصوم جان میں اس وقت طاقت آتی ہے جب والدین اس کو شاباشی دیکراس کی ہمت بڑھاتے ہیں ۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی میں حوصلہ افزائی سے بچے کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ڈینیل گول مینـ” Social Intelligence: The New Science of Human Relationships”میں رقمطراز ہیں :
Encouraging words not only feel good , but there is a science to it when we were encouraged the areas of our brain that helps us with creativity and cognitive things lightup.
یعنی حوصلہ افزائی کے کلمات سے ہمارا دماغ حوصلہ پاتا ہے جسکی وجہ سے ہمار ی تخلیقی، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
Bloomsburg University of Pennsylvaniaکی ایک تحقیق کے دوران ریسرچ سکالروں نے بہت سارے کھلاڑیوں کا ڈیٹا جمع کیا اور بعد میں یہ پایا گیا کہ ان کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر تھی جن کی حوصلہ افزائی اور شاباشی کی گئی تھی۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی نے انگلینڈ کے 600تعلیمی اداروں کے0 4300طلباء پر ایک تحقیق کی ۔ سوالنامہ کے ذریعے طلباء سے پوچھا گیا کہ اساتذہ کی طرف سے کی گئی حوصلہ افزائی اور شاباشی ان کے تعلیمی کیرئر پر کیسے اثر انداز ہوئی ۔ 7سال پر محیط اس تحقیقی سٹیڈی کے ا عداد و شمار کا جب تجزیہ کیا گیا تو یہ نتائج سامنے آگئے کہ جن طلبہ کو اساتذہ کی طرف سے حوصلہ افزائی اور شاباشی دی گئی تھی ان میں سے 74فیصد طلبہ نے 16سال کی عمر کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ جبکہ ان طلبہ جن کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی تھی ان میں سے فقط 66فیصد ہی نے اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ مزید حوصلہ افزائی سے نوازے گئے طلبہ میں سے 64فیصد نے A Level حاصل کی جبکہ حوصلہ افزائی سے محروم ہوئے طلبہ میں سے صرف 52فیصد A Levelحاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ وہ طلباء جن کے والدین پیشہ ورانہ تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے تھے لیکن جنہیں اساتذہ نے حوصلہ افزائی کی ان میں سے 64فیصد طلبہ نے 16سال کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھی جبکہ ایسے ہی طلبہ جن کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی تھی میں سے فقط 52فیصد نے اپنی تعلیمی کیرئر کو جاری رکھا ۔ معروف ماہر تعلیم قاسم علی شاہ کے بقول ’’ اگر استاد بظاہر نالائق بچے میں فقط یہ یقین پیدا کر دے کہ وہ لائق ہوسکتا ہے تو بچے کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔‘‘
جہاں بچوں کو غلطیوں سے روکنا اور نرمی و شفقت کے ساتھ ان کی رہنمائی کرنا تعلیم و تربیت کی سودمند بنیادوں میں شامل ہیں وہاں اچھی کارکردگی دکھانے والے کو حوصلہ افزائی اور تعریف و توصیف کرنا بھی تعلیمی راہنما اصولوں میں شامل ہیں تاکہ طالب علم اپنی کارکردگی میں مزید بہتری کے لیے سرگرمی دکھائے ۔ حضرت ابی بن کعب ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجمع سے پوچھا : اے ابوالمنذر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ کتاب اﷲ کی کون سی آیت سب سے زیادہ عظمت والی ہے ؟ میں نے عرض کیا : ’’ آیت الکرسی‘‘ یہ جواب سُن کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا ور فرمایا : ابومنذر! تجھے علم مبارک ہو ‘‘ ۔تدریسی عمل کے دوران بچے کو شاباشی ا ور حوصلہ و ہمت دینا اس کی کایاہی پلٹ دیتی ہے ۔ تھامس الواایڈسن ( ۱۹۳۱۔ ۱۸۴۷) مشہور عالم اور سائنس داں گزرا ہے جس نے اولین برقی واٹ شمار کرنے والی مشین 21سال کی عمر میں ایجاد کی ۔ یہ عظیم سائنس دان جب ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ایک دن اسکول سے واپس آیا ، ایک بند لفافہ اپنی ماں کے ہاتھ میں دیا اور بتایا کہ استاد نے آپ کو دینے کیلئے کہا ۔ ماں نے جب لفافہ کھولا اور اس کو دیکھنے لگی تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ۔ پھر اس نے خود کو سنبھالا اور بلند آواز سے اپنے بیٹے کو پڑھ کر سنایا :’’ تمہارا بیٹا ایکس جینیسGeneousہے ۔ یہ سکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے یہاں اتنے اچھے استاد نہیں ہیں کہ اسے پڑھا سکیں ۔ اس لیے آپ اسے خود ہی پڑھائیں‘‘ ۔برسوںبعد جب تھامس ایڈیسن ایک سائنس دان کے طور پر مشہور ہوچکا تھا اور اس کی والدہ وفات پاچکی تھیں ۔ وہ اپنے خاندان کے پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ ھ رہاتھا، اس کو وہی لفافہ ملا جو اس کے استاد نے دیا تھا،وہ کھول کر پڑھنے لگا۔ اس میں لکھا تھا ’’ آپ کا بیٹھا انتہائی غبی Dullاور ذہنی طور ناکارہ ہے۔ ہم اسے سکول میں مزید نہیں رکھ سکتے‘‘۔ پہلی بار اس خط کو پڑھ کر ماں کی آنکھوں سے آنسو امنڈ پڑے تھے ۔ آج اسی خط کو پڑھ کر بیٹے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی ۔ اسی دن ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا۔ ’’تھامس ایڈیسن ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا ، پر ایک ماں نے اسے صدی کا بڑا سائنس دان بنادیا ‘‘۔
تعلیمی عمل کے دوران اسُتاد کے شاباشی کے’’ دوبول ‘‘ شاگردوں کے تعلیمی سفر کو ایک مثبت رُخ دے سکتے ہیں ۔ زبان کی نرمی اور ہمدردی سمیت باڑی لنگویج بچوں کو متاثر کرسکتی ہے۔بچے کے کندھے پر استاد کا خالی ہاتھ رکھنا ہی اس کے لئے ایک بڑی طاقت ثابت ہوسکتی ہے اور معمولی کام کو مکمل کرنے پر استاد کی طرف سے انعام اور ایوارڑ ملنے پر وہ بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دینے کے لئے تیار ہوسکتا ہے ۔تعلیم و تربیت کے دوران اگر استاد بچے کے ساتھ ان الفاظ کا استعمال کریں۔تو بچہ کسی بھی مسابقتی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑسکتا ہے ۔
اچھا ، سیدھا Good ٹھیک ، سیدھا Right
بہت خوب ، بہت اچھا Very Good
مہا ، بڑا Great
نفیس ، عمدہ Nice
غیر معمول ، انوکھا ، حیرت انگیز Extra Ordinary
ممتاز ، خصوصی Exceptional
ناقابل یقین Un- Believable
شاباش ، درخشاںBrilliant
بہت خوب Excellent
مہا ، اعلیٰ Super
سندر ، خوبصورت Beautiful
مجھے تم پر فخر ہے I am proud you
آپ خاص ہیں You are Special
تم بہتر ین ہو You are the best
معمارانِ قوم سے یہی مودبانہ اور مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے نزدیک جاکر ان کے مسائل کو غور سے سنیں اور ہمدردانہ اور مخلصانہ طریقے سے ان کو حل کریں ۔ اگر بچے میں کسی قسم کی کمزور ی ، کوتا ہی ، کمی ہو تو ایک شفیق ا و رفیق اُستاد کی حیثیت سے ان کمزوریوں اور کوتا ہیوں کو دور کرنے کے لئے پیار بھرا ماحول فراہم کریں تاکہ بچہ حوصلہ ، عزم اور ہمت پا کر اپنی کمزوریوں کو دور کرسکے ۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)