سبدر شبیر
بچوں کی دنیا حیرتوں سے بھری ہوتی ہے۔ ہر لمحہ، ہر تجربہ ان کے لیے ایک نیا سبق، ایک نیا دروازہ کھولتا ہے۔ وہ اپنی معصوم نگاہوں سے اس دنیا کو دیکھتے اور اس کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت ان کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ دور ان کی نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی نشوونما کا ہوتا ہے، جہاں محبت، شفقت، اور صحیح رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کی۔
بچے فطری طور پر متجسس ہوتے ہیں۔ وہ ہر چیز کے بارے میں جاننے کے خواہاں ہوتے ہیں، ہر سوال کا جواب چاہتے ہیں اور ہر حرکت میں کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر والدین اور اساتذہ ان کی اس جستجو کی حمایت کریں اور انہیں درست سمت میں رہنمائی فراہم کریں، تو وہ خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بچوں کا ذہن ایک خالی تختی کی مانند ہوتا ہے، جس پر جو کچھ بھی لکھا جائے، وہ دیرپا اثر رکھتا ہے۔ اگر انہیں سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑے تو وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور اپنی فطری جستجو کو دبانے لگتے ہیں۔ اگر انہیں نرمی اور محبت سے سمجھایا جائے تو وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور سیکھنے کے عمل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
ڈانٹ ڈپٹ اور سخت رویہ بچوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کر سکتا ہےاور ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ وہ کھل کر اپنی بات کہنے یا اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے ہچکچانے لگتے ہیں۔ ان میں باغیانہ رویہ بھی پیدا کر سکتی ہے اوروہ اپنی شخصیت کو دبانے کے بجائے ضد پر اتر آتے ہیں۔ کئی نفسیاتی تحقیقوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ بچوں کے ذہن میں خوف، اضطراب اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے جو آگے جا کر ان کی تعلیمی اور سماجی زندگی پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔
بچوں کی شخصیت کو نکھارنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی رہنمائی محبت، شفقت اور دانائی سے کی جائے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی غلطیوں پر انہیں سخت سزائیں دینے کے بجائے ان غلطیوں سے سیکھنے میں ان کی مدد کریں۔ ہر بچے کی نفسیات مختلف ہوتی ہے۔ کچھ بچے حساس ہوتے ہیں، کچھ ضدی، کچھ شرمیلے اور کچھ بہت متحرک۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر بچے کے مزاج کو سمجھا جائے اور اسی کے مطابق اس کی رہنمائی کی جائے۔ بچے کو نرمی سے سمجھایا جائے کہ اس کی غلطی کیا تھی، اس کا کیا اثر ہو سکتا تھا اور آئندہ اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح بچے نہ صرف اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے بلکہ آئندہ بہتر فیصلے کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔
بچوں کے ہر اچھے کاموں کو سراہا جائے اور انہیں شاباش دی جائے۔ اس سے ان میں نیکی اور مثبت رویے کو اپنانے کا رجحان بڑھے گا۔
بچے اکثر اپنے والدین اور اساتذہ کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، دوسروں سے محبت اور عزت کے ساتھ پیش آئیں اور مثبت رویہ اپنائیں تو بچے بھی انہی رویوں کو اختیار کریں گے۔ آج کے دور میں جہاں ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان بنا دیا ہے، وہیں بچوں کی تربیت کے چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں۔ موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے بچے بہت سی غیر ضروری چیزوں میں اُلجھ سکتے ہیں۔ ایسے میں والدین کی ذ مہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ بچوں کے لیے ایک متوازن ماحول فراہم کریں۔ بچوں کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی باتیں سننا، ان کے مسائل کو سمجھنا اور انہیں زندگی کے صحیح اصول سکھانا والدین کا بنیادی کام ہے۔ اگر والدین اور اساتذہ بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کریں تو بچے خود بخود ان کی باتوں پر عمل کرنے لگتے ہیں۔بچوں کی تربیت میں رہنمائی سب سے اہم عنصر ہےاور محبت اور حکمت سے کی جانے والی رہنمائی انہیں ایک کامیاب اور خوشحال زندگی کی طرف لے جا سکتی ہے۔
[email protected]