طارق حمید شاہ ندوی
اولاد اللہ کی طرف سے ایک عطیہ اور نعمت ہے اور جو نعمت جتنی بڑی اور اہم ہوتی ہیں، اُس کی دیکھ بال بھی اتنی ہی اعلیٰ درجے کی ہونی چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور میں والدین قدرتِ الٰہی کی طرف سے دی گئی ذمہ داریوں سے بہت زیادہ غافل اور لاپرواہ ہوچکے ہیں۔جس کے نتیجے میں نہ صرف والدین سے اپنی دنیا بلکہ عقبی بھی کھسکتی جارہی ہیں۔ اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو عصر حاضرمیںوالدین کی اولاد کے تئیں غفلت اور لاپرواہی نے ہمارے سیدھے سادھے ،صالح اور صوفیانہ معاشرے (پیر واری) کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے،جس کے نتیجے میں آئے روز نِت نئے بھیانک قسم کے حادثات، جرائم اور اخلاقی قدروں کی پامالی کے اَن گنت واقعات سے ہماری یہ پاک دھرتی پلید ہو رہی ہے۔ ایسے والدین نہ صرف خود کے مجرم ہیں بلکہ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ معاشرے اور فطرت کے بھی مجرم اعظم ہیں۔ والدین پیار اور محبت کے نام پر اپنی اولاد کی دنیا و آخرت دونوں تباہ کر رہے ہیں۔ جس کا قدرت الٰہی کے سامنے جوابدہی اور جزا و سزا دونوں جہاں میں اٹھانی ہی پڑے گی۔بقول ہمارے اسکول کے ایک شعبے کی ذمہ دار میم محترمہ عمیرہ میم کے،’’ چھوٹی عمر میں اپنے بچوں کو پیار کرنے اور سب کچھ دینے میں فرق کو سمجھنا چاہئے۔ والدین کو اپنے بچوں پر کنٹرول نہیں کھونا چاہئے۔ انہیں اپنے بچوں کے سماجی رابطوں، دوستوں، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، ان کی دلچسپیوں کا بغور مشاہدہ کرنا چاہئے۔اولاد کے لئے سب کچھ مہیا رکھنا اور اُن کی ہر فرمائش پورا کرنا محبت نہیں ہے اور اگر آپ کا بچہ ابھی ساتویں یا آٹھویں جماعت ہےاور اس کی عمر تیرہ چودہ سال ہے اور آپ اسے موٹر سائیکل یا موٹر گاڑی دینےچلانے کے لئے دیتے ہیںتو یہ بھی محبت نہیں ہےبلکہ والدین کا یہ عمل اپنے بچےکے لئے سراسر دشمنی کے ہی مترادف نہیں ہے بلکہ اس کے المناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیںاور آتے بھی رہتے ہیں۔‘‘ آجکل والدین اپنے بچوں کے محسنین ،خیر خواہوں اور اساتذہ کے مفید مشوروں کو غلط نظریے سے لیتے ہیں اور اپنے بچوں کے اِن مخلص محسنین کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں جو ان ذمہ داریوں کو بھی نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو والدین کو گھروں میں اپنے بچوں کے لیے نبھانے ہوتے تھے۔اور جن کا تذکرہ آج کل ذرائع ابلاغ میں عموماً ہوتارہتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کی نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ کمسن لڑکوں ولڑکیوں کی بگڑتی صورت حال باعث تشویش ہے اور وہ مختلف بُرائیوں و خرابیوں کی نذر ہوکر آوارگی ،اخلاقی بے راہ روی ، منشیات کی لت اور جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے،جس کے نتیجہ میں معاشرے کے مستقبل کا ایک اہم حصہ تباہ و بُرباد ہورہا ہے۔ظاہر ہے کہ معاشرے کا بیشتر حصہ اخلاقی تنزل اور انحطاط کے گردِ آب میں پھنس چکا ہے ، اگر اس کا فی الفور مثبت علاج و تدارک نہ کیا جائے تو جوافسوسناک و شرمناک نتائج آج تک برآمد ہوچکے ہیں ،اُن سے بھی زیادہ المناک اوربھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
حالانکہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کی خاص تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش چیزوں کا جائزہ لیتے رہیں اور جو خرابیاںپیدا ہورہی ہیں، اُن کے سد باب کی فکر کریں۔ظاہر ہے کہ جب والدین کو اپنے اولاد کی اصلاح اور سدھار کی فکر ہوگی ،تبھی ہمارا معاشرہ پاکیزہ سانچے میں ڈھلے گا۔بچے بے راہ روی سے بچیں گے،فلاح و بھلا خیال رکھا جائےگااور ایک دوسرے کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ خاندان کی تعمیر اورمعاشرہ کی تشکیل میں والدین کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر نسل ِ نو کی پر ورش کی نگہداشت اور ان کی تعلیم وتربیت سے لیکر اُن کی ذہن سازی تک خواتین جتنا نمایاں اور مثبت کردار ادا کریں گی ،وہ مردوں کے مقابلے زیادہ موثر اور دیر پا ثابت ہوگا۔بے شک والدین کو سب سے عزیز اپنی اولاد ہوتی ہے اور اولاد کو سب سے زیادہ محبت والدین سے ہی ہوتی ہے،والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی پیار جھلکتا ہے۔اس لئےیہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کواچھے بُرےکی پہچان کروائیں، بُری باتوں اور بُرے کاموںسے روکیںاور اُن کی بھلائی کے لئےاُن کے ساتھ دوستانہ ماحول بنائیںتاکہ بچےاُن کی نصیحتوں پر عمل کریں اوربچےکوئی بھی اپنی بات والدین کو بتانے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔لیکن والدین کے لئے انتہائی لازم ہے کہ وہ اپنے نابالغ بچوں کی مانگوں اور خواہشوں میں اعتدال رکھیں،تاکہ وہ اتنے ضدی اور خود سرَنہ بن جائیں کہ بعد میں والدین کو پچھتانا پڑے۔ بچے زیادہ تر وقت اپنے گھروں میں ہی گذارتے ہیں،اس لئےانہیںبُری باتوں، بُری سوسائٹی،بُرے دوستوں اور بُرے کاموں سے دور رکھنےمیں سب سے زیادہ رول والدین کا ہوتاہے،نہ کہ اساتذہ کا۔جبکہ حق بات یہ بھی ہے کہ آج کے بچے بڑے ہونہار اور ذہین ہیں، ارد گرد کے ماحول سے باخبر ہیں، مختلف چینلز کے ذریعے ایک ایک پل کی خبر رکھتے ہیں۔اِرد گرد کے ماحول کی خبر رکھتے ہوئے
بُری سوسائٹی کے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس لئےبچے کے اچھے مستقبل کے لیے اس پر کنٹرول کرنا والدین کے لیے بے حد ضروری ہےاور اُن کی فرمائشوں اور مانگوں کو پورا کرنے میں عقل اور اعتدال کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
(مضمون نگار، دبئی گرینڈ انٹرنیشنل اسکول سرینگرکے شعبہ اردو سے منسلک ہیں)