سرینگر//وادی میں پچھلے ایک ہفتے سے بچوں میں پائی جانے والی بیماریوں کی وجہ سے جہاں والدین بچوں کے مخصوص اسپتالوں کے باہر قطاروں میں دکھائی دے رہے ہیں وہیں ریاست میں وائرل بیماریوں پر نظر رکھنے والے ماہرین بھی ابھی اس بات کا پتہ لگانے میں ناکام ہیںکہ بچے کس وائرس کا شکار ہوکر بیمار ہورہے ہیں۔سٹیٹ سرولنس آفیسر نے بیمار بچوں کو سکول سے دور رکھنے کی صلح دی ہے ۔مذکورہ آفیسر کا کہنا ہے کہ نیشنل سینٹر فار ڈیزیزکنٹرول کو نمونے بھیجے گئے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں رپورٹ آجائے گی۔سرینگر کے جی بی پنتھ اسپتال میں مارچ کے مہینے میں 27,683بچوں کا علاج و معالجہ کیا گیا ہے جن میں 13841 وائرل بیماری میں مبتلا پائے گئے۔سٹیٹ سرولنس آفیسر ڈاکٹر ایس ایم قادری اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وادی میں وائرل بیماریوں کی زد میں کئی بچے آئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر قادری نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماج میں وائرس موجود ہے جو ہر سال مختلف شکل اختیار کرتا ہے۔ ڈاکٹر قادری کا کہنا ہے کہ یہ Influenza وائرس بھی ہوسکتا ہے مگر حقائق کا پتہ لگانے کیلئے نمونے نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اور سکمز صورہ بھیج دیئے گئے ہیںتاہم رپورٹ آنے میں ابھی چند دن لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مارچ میں یہ عام سی بات ہے اور کوئی نازک صورتحال ابھر کر سامنے نہیں آئی ہے۔ شیر کشمیر انسٹیچوٹ آف میڈیکل سائنس میںامریکی پروجیکٹ کے تحت ریاست میں وائرل بیماریوں پر نظر رکھنے والے شعبہ میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر پرویز احمد کول نے کہا کہ کشمیر میں وائرل بیماریوں کی ہر دن20سے 25نمونوں کی جانچ کی جارہی ہے اور آج تک ایسا کوئی بھی غیر معمولی وائرس نہیں پایا گیا ہے جو لوگوں کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ کشمیر میں H1N1,H3N2اور دیگر وائرس پہلے سے ہی موجود ہے جو لوگوں کو بیمار کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسم میں تبدیلی آنے کے ساتھ ساتھ ہی بیماریاں بھی ختم ہوجائیں گی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ Influenza A, Influenza B اورInfluenza Cکے وائرس لوگوں کو بیمار کرسکتے ہیں تاہم یہ جان لیوا ثابت نہیں ہوسکتے۔ ڈائر ہیلتھ کشمیر ڈاکٹر سلیم لرحمن نے ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے سانس کی بیماریوں سے بچنے کیلئے احتیاب برتنے کا مشورہ دیا ہے۔ ڈائریکٹر نے اپنی ایڈوائزری میں بیماریاں پھیلانے والی وائرس rhinovirus, Para-influenza, adenovirus, RSV, influenza virus سے بچنے کیلئے بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے بیماری کے دوران دور رہنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ ایڈوائزری کہا گیا ہے کہ سانس کی نلی میں انفیکشن ہر سال اکتوبر کے مہینے میں پھیلتا ہے ،جسکی وجہ سے مریض کو نزلہ، زکام، کھانسی، بخار، گلے کی خراش اور سینے میں انفیکشن کی شکایت رہتی ہے۔محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ وائرل انفیکشن کی علامات :کھانسی ،بخار،جسم میں سردی ،گلے میں خراش ،جوڑوں ومازپیشیوں میں درد،تھکاوٹ ،سردرد اوربہنا یا ناک جکڑی ہوئی ہے۔ان بیماریوں کی روکتھام : آنکھوں ،نوک اور منہ کو غیر ضروری چھونا بند کریں ،بیمار رہنے کی صورت میں گھر میں آرام کریں ،دوسروں سے انفیکشن لینے یا دینے سے احتیاط کیلئے گھرمیں رہنے کو ترجیح دیں ۔ہاتھوں کو صابن اور پانی سے متواتر بنیادوں پر صاف کریں اوربیماریوں اشخاص سے دور رہیں ۔خطرے کی علامت:تیز سانس لینا ،سینے یا پیٹ میں شدید درد ،اچانک چکر آنا یا الجھن ۔علاج :اینٹی بائیوٹیکس کو خود نہ لیں ،علاج کیلئے میڈیکل مدد لیں ،ڈاکٹروں کے مشورے پر ہی ادویات لیں ،منہ اور ناک کو بند رکھیں ۔تاہم عام لوگوں کو ماسک لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔