گذشتہ روز معمول کی طرح ٹیوشن سنٹر سے گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ کوچنگ سینٹرکا ہم پیشہ ایک اُستاد کچھ بتائےبغیرچلا گیا تھا۔میں نے فون پر رابطہ کرکے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس کے ایک رشتہ دار لڑکے کو کچھ غنڈوں نے بے دردی کے ساتھ پیٹ پیٹ کرایک گلی میں بے ہوشی کی حالت میں ڈال دیاتھا ۔شدید ٹھنڈ میں چودہ سالہ یہ لڑکا نیم برہنہ حالت میں زخمی پڑا ہوا تھااور چلنے پھرنے سے لاغر ہوچکا تھا۔ اُس کی اس حالت کو سُن کر میں کچھ لمحوں کے لئے دھنگ رہ گیا کہ ہمارے معاشرے کی نسل ِ نو کی نہج کس ڈگر پر جا پہنچی ہے کہ ایسے تشویش ناک واقعات روز رونما ہوتے رہتےہیں۔ میںنے یہی اخذ کیا کہ اس واردات کے پیچھےکوئی بھی وجہ ہو ، مگر اصل وجہ تومعاشرے میں پنپ چکی بُرائیوں اور خرافات کا ہی عمل دخل ہوگا۔ ذرا غور کیجئے جو بچے ابھی بلوغت کی دہلیز پر بھی نہیں پہنچ چکے ہیں، آج کل سمجھنے لگے ہیں کہ وہ دوسروں سے بہت الگ ہیں۔ گویا اُن کے اندر طاقت کے ایسےدریا سمائے ہوئے ہیں، جو چھوٹی سی بات پر سیلاب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئےاُنہیں کسی کی ہدایت ،نصیحت، رُکاوٹ ہضم ہی نہیں ہوتی ۔اصل میں یہ اُن کی غلطی نہیںبلکہ یہ غلطی اس سماج کی ہے، جو اِن کمسن یا بالغ بچوں کی اچھی تربیت کی طرف دھیان نہیں دیتی۔ظاہر ہے کہ یہ بچے خود سے غافل ہوتے ہیں۔ کوئی جرم کرنے کے بعد بھی وہ اسےجرم نہیںمانتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ یہ عمل ان کی شان کے خلاف ہے۔ اُن کی ذہنی ناپختگی ان کو دوسروں سے اعلیٰ بننے کی دوڑ میں لگی رہتی اور انجام سے بے خبر رکھتی ہے۔اسی طرح اس دورِ جدید میں موبائل فونس کی بھرمار نے بھی انہیںاپنی عمر سے کافی بڑا بناکے رکھ دیا ہے ۔ جسمانی ، ذہنی،فکری، سماجی ، معاشرتی اور مذہبی لحاظ سےبھی وہ اپنے آپ کو اتنا تناور سمجھنے لگےجتنا کہ وہ ہوتے نہیں۔ فلموں اور ڈراموں میں دوسروں کو غنڈہ گردی کرتے ہوئے ان کو لگتا ہے کہ ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں، دوسروں پر اپنا رعب جما سکتے ہیںاور کسی کو بھی زیر کرسکتے ہیں،چاہے انجام کچھ بھی ہو۔ وہ اس بات کو سمجھ نہیں پاتے کہ فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے والےچھوٹے بڑے لوگ پیشہ ور فنکار ہوتے ہیںاور کافی حد تک تربیت یافتہ بھی، اور اُجرت کے عوض کسی کے اشارے پر کام کرتے رہتے ہیں، مکالمے بولتے ہیں اور اسکرپٹ کے مطابق لڑائی جھگڑے کے کرتب دکھاتے رہتے ہیں جوکہ سب کے سب فرضی ہوتے ہیں۔لیکن ہمارےبچے بندروں کی طرح اُن کی نقالی میں ناحق اِس دلدل میں اُتر جاتے ہیں، جہاں سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہےاور نتیجہ خرابیوں اور بُرائیوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔یا تو یہ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر معذوربن کر خود کے لئے اور گھر والوں کے لئے ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ سماج تباہی کی طرف بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اب اگر یہاں کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالیں تو ہمارا تعلیمی نظام اخلاقیات سےکافی دور ہوچکا ہے۔ ہاں! اخلاقی باتیں تو لفظوںمیں دکھائی دیتی ہیں، مگرعملاًاس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ اگر دس بارہ سال کےبچوںکی پرورش اور تعلیم و تربیت ایک تہذیب یافتہ اورپُر سکون ماحول میں پُر خلوص طریقےپر ہوئی ہوتی، تو ممکن تھا کہ یہ بچے دادا گری اورغنڈہ گردی جیسی غلاظت سے پاک ہوتے، مگر معاشرے کے زیادہ تر افراد نے بچوں کو ایک ہی بات سمجھائی ہے کہ زندگی کا مقصد ہے ڈاکٹر ،انجینئر،فارسٹر،انسپکٹر یا اعلیٰ افسربن کر پیسہ کماناہے،چاہے اس کے لئے کوئی بھی جائز اور ناجائز طریقہ استعمال کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ بچوں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کوئی دوسرا بچہ تمہاری برابری نہیں کرسکتا، ہم اعلیٰ ہیں، وہ ادنیٰ ہے۔ اُس کی ذات کم ہے اور ہمار اونچی ہے۔ یہ باتیں بھی آگے چل کر بُری اشکال اختیار کرلیتی ہیںاور بچوں کا ذہن بگاڑ دیتی ہیں۔اب ذرا عاشقی پر نظر ڈالیںتو بالغ ہونے پر ہی لڑکوں اور لڑکیوں کے اذہان میں دوسری جنس کی قربت کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔لڑکیاں تو اس کا اظہار بہت کم کرتی ہے،لیکن آج کے اس دور میں لڑکے اس کا کھلم کھلا اظہار کرتے پھرتے ہیں۔ سج سنور کر فلمی انداز میں لڑکیوں کو اپنی طرف مایل کرنا اُن کامشغلہ بن چکا ہے۔ کم عمری میں لڑکیوں کو پیار ومحبت کے پیغامات بھیجنا،اُن کو پانا ہی زندگی کا مقصد بنتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ دورِ حاضرمیں کوئی لڑکا جس لڑکی چاہتا ہے،اگر اُسے کسی اور لڑکے نے محبت کا پیغام بھیجا تو حالات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ پہلاعاشق فلمی ہیرو بن کر اس بات کواپنے لئے موت تصور کرتاہے،اس لئے کوئی بھی فعل کر گذرتا ہے۔ اس قسم کے واقعات روزانہ مشاہدےمیں آتےہیں۔ جس لڑکے کا ذکر میں نے مضمون کی ابتداء میں کیا ہے، اُس کی وجہ یہی تھی۔ اُس نے ایک لڑکی کو محبت کا پیغام بھیجا تھا، جو دوسرے لڑکے کے گلے سے نہیں اُترا اور اس طرح سے اس کی سرِ راہ ہڈی پسلی ایک کردی گئی ۔ یہ دونوں عاشق، ایک ہسپتا ل میں پڑا ہے اور دوسرا جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔ اور رہی لڑکی، وہ زندگی کے پہلے اُتار چڑھاؤ سے جینا سیکھ رہی ہے۔
قارئین !وقت کی ضرورت ہے کہ ہم دانائی کا مظاہرہ کرکے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو جتنا ہوسکے، بلوغت کی عمر کے بارے میں روشناس کرائیں۔ اگر کوئی بچہ اپنی من مانی کرتا ہے تو اس کو سمجھائیں کہ اس کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے لئے counseling کا اہتمام کروائیں۔ ایسے قابل اور تجربہ کار لوگوں کی خدمات حاصل کریںجو نسلِ نو کوغنڈہ گردی سے باز لا سکیں تاکہ ایسے دلدوز اور تشویشناک واقعات معاشرہ کا مستقل حصہ نہ بن جائیں۔ بچوں کو مناسب درسگاہوں میں داخل کیجئے، جہاں ان کی اخلاقی تربیت ہوسکے۔بچوں کو ایک باوقار زندگی گزارنے کی طرف مائل کیجئے۔ اس میں وقت ضرور لگے گا، مگر آنے والے کل میں ہم اس کے مثبت نتائج دیکھ پائیں گے۔ آیئے اور عہد کیجئے کہ ہم معاشرے کےبچوں کا خیال رکھیں گےاور انہیں انسانیت کااصل شرف سکھائیں گے۔
(مدرس حسینی پبلک اسکول ایچ ایم ٹی، سرینگر،رابطہ۔7889346763)
صنفِ نازک اور ہماری ذمہ داریاں
(فکروادراک)