سرینگر// شہر کے بٹوارہ علاقے میں گزشتہ60برسوں سے زائد عرصے سے قائم ڈاک خانہ کو کنٹونمنٹ بورڑ نے اچانک بند کردیا جس کی وجہ سے قریب40ہزار کی آبادی کو سخت مشکلات کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ بٹوارہ میں قائم پرانے ڈاک خانوں میں سے ایک ڈاک خانہ کو سنیچر کومقفل کر دیااور تمام سامان اور دیگر اشیاء کو گاڑیوں میں لادکر جنرل پوسٹ آفس منتقل کیا گیا۔ مقامی لوگ حسرت بھری نگاہوں سے ڈاک خانے کو مقفل ہوتے دیکھتے ہی رہ گئے۔محکمانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ ڈاک خانہ کو کچھ عرصہ کنٹونمنٹ بورڑ سے ایک مکتوب موصول ہواجس میں کہا گیا کہ سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر ڈاک خانہ کو بند کیا جائے۔ذرائع کے مطابق کنٹونمنٹ بورڑ بادامی باغ کے چیف ایگزیکٹو افسر کی طرف سے6مارچ کو ایک مکتوب زیر نمبرCB/post Office/5150پوسٹ ماسٹر بٹوارہ ڈاک خانہ کے نام موصول ہوا جس میں پوسٹ آفس کو خالی کرنے کی ہدایت دی گئی۔مذکورہ مکتوب میں کہا گیا تھا’’آپ نے پوسٹ آفس بلڈنگ پر قبضہ کیا ہے جو کہ بادامی باغ کنٹونمٹ کی ہے اور سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اس پوسٹ آفس بلڈنگ کو فوری طور پر خالی کریں‘‘۔محکمہ کے ذرائع کے مطابق اس سے قبل متعلقہ بورڑ نے ڈاک خانے کے عقب سے دیوار بھی کھڑی کر کے کھڑکیوں کو آہنی سلاخوں سے سیکورٹی بنیادوں پر ہی بند کیا تھا جبکہ حالیہ ایام میں پہلے پانی کی سپلائی بھی روک دی گئی اور بعد میں اس عمارت کو خالی کرنے کی ہدایت دی گئی۔محکمہ کے ایک افسر نے بتایا کہ انہیں اس قدر مہلت بھی نہیں دی گئی کہ وہ علاقے میں کسی اور جگہ کا انتخاب کرتے جس کے بعد مجبوری میں انہیں یہ ڈاکخانہ جنرل پوسٹ آفس سرینگر منتقل کرنا پڑا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ڈاک خانے میں مقامی لوگوں کے قریب3ہزار کھاتے موجود ہیں،جنہیںاب5کلو میٹر دور پوسٹ آفس کا رخ کرنا پرے گا۔ مذکورہ پوسٹ آفس کشمیر کے پرانے ڈاک خانوں میں شمار ہوتا ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق60برس سے زائد عرصے سے یہاں یہ پوسٹ آفس قائم تھا۔ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ امسال جنگجویانہ سرگرمیوں میں تیزی کے بعد پہلے اس عمارت میں موجود کئی دکانوں کو بھی گزشتہ ماہ بند کیا گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ ڈاک خانہ بٹوارہ کے علاوہ،اندرا نگر،اقبال کالونی،یتو محلہ،شیو پورہ،پاندریٹھن،سوئیہ ٹینگ،گنڈہ بل اور ملحقہ علاقوں کے علاوہ بادامی باغ میں تعینات فوجی اہلکاروں کیلئے بڑی سہولیت فرہم کرتا تھاتاہم اچانک اس کو مقفل کرنے سے عام شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ایک مقامی بزرگ باشندے نے بتایا ’’پوسٹ آفس گزشتہ60برسوں سے وہاں پر موجود ہے،اور اگر تب سے اس سے کوئی گزند نہیں پہنچی تو اچانک یہ نقصان دہ کیسے ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔ایک اور مقامی شہری نے بتایا کہ اگر چہ1999میں بادامی باغ ہیڈ کوارٹر پرفدائین حملہ بھی ہوا تھا،اور90کی دہائی میں پوسٹ آفس کے باہر دھماکہ بھی ہوا تھا،مگر اس صورتحال میں بھی ڈاک خانہ کو بند نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے پوسٹ آفس کے عقب میں قدیم تعلیمی ادارے گورنمنٹ ہائی اسکول بادامی باغ کو بھی عملاً بند کیا گیااور اس کا راستہ فوجی کیمپ سے بنادیا گیااور اب ڈاک خانے کو بند کیا گیا۔مقامی لوگوں نے کنٹونمنٹ بورڑ کے اس قدم پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہی پر بس نہیں ہوا بلکہ مقامی طور پر’’ نواب باغ‘‘ کہلائے جانے والے میدان کی دیوار بندی کی گئی اور اس میں کیندریہ ودھیالہ(سینٹرل اسکول) تعمیر کیا گیا جس کی وجہ سے نصف درجن علاقہ جات کے بچوں کو کھیلنے کا میدان بھی میسر نہیں ہے۔ مقامی لوگوں نے ریاستی سرکار سے بالخصوص وزیر اعلیٰ اور فوج کے سب ایریا کمانڈر(جو کہ بورڑ کے صدر بھی ہے)سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں،اور علاقے میں حسب دستور پوسٹ آفس کی سہولیت برقرار رکھنے کیلئے اقدمات کریں۔مقامی لوگوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر علاقے میںپوسٹ آفس کی سہولیت برقرار نہیں رکھی گئی،تو وہ احتجاج کا راستہ اپنائے گے۔