سرینگر//بٹہ مالو بس اڈہ کی منتقلی کو مسافروں کیلئے سوہان روح قرار دیتے ہوئے مسافروں نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فیصلے پر پھر سے نظر ثانی کریں۔ لوگوں کے ایک وفد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بٹہ مالو بس اڈہ پر زر کثیر خرچ کیا جا چکا ہے،جس کے دوران ایک بڑی عمارت کے علاوہ مسجد اور اڑہ میں بیت الخلاء بھی موجود ہے۔وفد نے بتایا کہ بٹہ مالو بس اڈہ تین راستوں سے بائی پاس سے جڑا ہوا ہے جس میں بٹہ مالو بائی پاس سے ٹینگہ پورہ ، قمرواری اوراڈہ بٹہ مالو سے بمنہ بائی پاس جس کا دورانیہ 2 کلومیٹر تک ہے اور شہر سرینگر کے اندر گاڑیوں کی کسی قسم کی دخل اندازی نہیں ہے ،جبکہ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تینوں راستوں کو فعال بنائیں تاکہ مشکلات کا ازالہ ہوجائے۔وفد میں شامل تاجروں نے کہاکہ اگر بٹہ مالو اڈہ پارمپورہ منتقل کیاگیا ہمارا تقریباً 60 فیصد روزگار متاثر ہوجائے گا۔ تاجروں نے بتایا کہ دوکاندار بٹہ مالو اڈہ بس سٹینڈ کی وجہ سے کاروبار کی منڈی بن چکا ہے ہزاروں لوگ کاروبار کی وجہ سے اس سے جڑے ہیں، اورعام لوگوں کے لئے یہ مشکلات کا سبب بن جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بس اڈے کی منتقلی سے عام مسافر جس میں ملازم، طلبہ و طالبات ، مزدور ، بیمار یا تیماردار غرض ہر ایک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ لوگ دور دراز علاقوں سے آتے ہیں، یاشہر کے لوگ گائوں کی طرف رخ کرتے ہیںتو بٹہ مالو اڈے سے ان کو شہر کی طرف پہنچنے کیلئے آٹو، سومو ، منی بس ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بٹہ مالو بس اڈے کو کشمیر میںمرکزیت حیثیت حاصل ہوچکی ہے جس سے عام یاخاص مسافر کو رات یا دن میں کسی وقت کچھ بھی درکار ہو بغیر خوف اْس کا مداواہ ہوسکتا ہے۔ وفد میں شامل ٹرانسپوٹروں نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں گھرانے جن میں لاکھوںلوگ بستے ہیں اڈہ بٹہ مالو سے باالواسطہ یا بلا واسطہ وابستہ ہیں،جن کا کاروبار اور روزگا بس اڑہ کی منتقلی کی وجہ سے متاثر ہوگی۔انہوں نے تمام ٹریڈیونین، ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن،مزدور یونین کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آئندہ ایسے کسی بھی فیصلے کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ یکسوئی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔