محمد امین میر
ایک خاموش پُرامن دیہی علاقے میں، جہاں زندگی کے شور و غل سے دور فطرت کا سکون بکھرا ہوا تھا، ایک دانا شخص کی گاڑی اچانک خراب ہو گئی۔ مدد کی تلاش میں وہ قریبی گاؤں کی طرف چل پڑا۔ جیسے ہی وہ گاؤں میں داخل ہوا، ایک انوکھا منظر اُس کے قدم روکنے کا سبب بن گیا۔ایک بزرگ چارپائی پر بیٹھا تھا اور اُس کے اردگرد مرغیاں دانہ چگ رہی تھیں، مگر انہی میں ایک منظر ایسا تھا جو چونکا دینے والا تھا، — ایک باز کا بچہ بھی انہی مرغیوں کے ساتھ زمین پر بیٹھا دانہ چگ رہا تھا۔حیرت سے دانا شخص نے پوچھا:’’یہ کیا ماجرا ہے؟ باز کا بچہ مرغیوں کی طرح دانہ کیوں چگ رہا ہے؟ یہ تو بلند فضاؤں کا راہی ہے؟‘‘
بزرگ نے ہنستے ہوئے کہا:’’یہ مجھے پہاڑوں میں زخمی حالت میں ملا تھا۔ میں نے اس کی دیکھ بھال کی اور مرغیوں کے درمیان رکھا۔ جب اس نے پہلی بار آنکھ کھولی تو صرف مرغیاں دیکھیں۔ وہ ان کی طرح جینے لگا اور اپنی پہچان بھول گیا۔‘‘یہ سن کر دانا شخص نے باز کا بچہ مانگا اور اُسے اپنے ساتھ لے گیا۔ اُس نے روز اسے چھت پر لے جا کر کہا:’’تو باز ہے، مرغی نہیں! تو زمین پر رینگنے کے لیے نہیں، آسمان کی وسعتوں میں اُڑنے کے لیے پیدا ہوا ہے!‘‘
مگر باز کا بچہ ہر بار خوف سے نیچے دیکھتا، اپنے پَر سمیٹ لیتا اور واپس زمین پر بیٹھ جاتا۔ مہینوں تک یہ سلسلہ جاری رہا، مگر دانا شخص کی زبان پر روز یہی الفاظ ہوتے:’’اپنی پہچان کو پہچان! تو آسمانوں کا شہزادہ ہے!‘‘پھر ایک دن وہ اُسے ایک بلند پہاڑ پر لے گیا۔ نیچے گہری کھائی تھی اور سامنے آسمان کی بے کراں وسعت۔ دانا شخص نے باز کو ہاتھوں میں بلند کرتے ہوئے کہا:’’اب یا اُڑ جا۔۔۔ یا ختم ہو جا!‘‘یہ کہتے ہوئے اُس نے باز کو پہاڑ سے نیچے پھینک دیا۔
باز گھبرا گیا، آنکھیں بند کر لیں، جیسے ہی آنکھ کھولی، زمین تیزی سے قریب آ رہی تھی۔ خوف نے اُسے جھنجھوڑااور پھر فطرت جاگ اُٹھی۔ اُس نے پر پھیلائے توازن قائم کیا اور وہ اُڑ گیا۔پہلی بار اُس نے فضاؤں کو چھوا، بلندی کو محسوس کیا، وہ بلند ہوتا گیا اور خوشی سے چیخا:’’میں باز ہوں۔‘‘نیچے کھڑا دانا شخص مسکرا کر بولا:’’میں نے تجھے کچھ نیا نہیں دیا۔میں نے صرف تجھے تیری اصل پہچان یاد دلائی۔‘‘
سبق اور پیغام:یہ کہانی صرف ایک باز کی نہیں،یہ ہم سب کی کہانی ہے، خاص طور پر آج کی نوجوان نسل کی۔آج کا نوجوان ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے، جہاں اُسے مسلسل بتایا جا رہا ہے کہ وہ ناکام ہے، کمزور ہے اور کچھ بڑا نہیں کر سکتا۔ سوشل میڈیا، تعلیمی دباؤ، معاشرتی توقعات اور خود اعتمادی کی کمی، — یہ سب مل کر اُسے اُس کی اصل پہچان بھلا رہے ہیں۔مگر سچ تویہی ہے اے نوجوانو! کہ تم باز ہو!تمہاری رگوں میں وہی طاقت دوڑ رہی ہے جو دنیا کو بدل سکتی ہے۔ تم وہ نسل ہو جو خواب دیکھ سکتی ہے ،جو کچھ نیا تخلیق کر سکتی ہے، جو سرحدوں سے آگے سوچ سکتی ہے۔لیکن شرط صرف یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو پہچانو!اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو تسلیم کرو!!ناکامیوں سے مت گھبراؤ۔آپ مرغیوں کے ساتھ دانہ چگنے کے لیے نہیں،اونچی اُڑان کے لیے پیدا ہوئے ہو۔نوجوانو!یہ وقت ہے کہ تم اپنے اندر کے ’’باز‘‘ کو جگاؤ۔اپنے پَر کھولو۔۔۔۔اور اُس آسمان کی طرف اُڑ جاؤ جو صرف تمہارے لئے ہے۔کیونکہ تمہارا مقام زمین پر نہیں، آسمان پر ہے۔
[email protected]