! بُرائیوں کی جڑبےروزگاری ہے

بلاشبہ بےروزگاری بھی ایک لعنت ہے جو اپنے ساتھ دوسری بہت سی مصیبتیں لے کر آتی ہے۔ بے روزگاری، مفلسی، بھوک اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کا اثر ایک طرف تو بے روزگار شخص اور کنبے کے تمام افراد کی جہالت، بدحالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، دوسری طرف بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چوری، ڈاکہ زنی، بے ایمانی یہاں تک کہ عصمت فروشی کے واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان جرائم کا ایک بڑا سبب بے روزگاری اور مفلسی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کے انفرادی اور سماجی نقصانات کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بے روزگاری کا اثر ملکی اور معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں بھی فراہم نہیں کرسکتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کا مطلب ہے ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا، وہ سب بیکار اور ضائع ہو رہا ہے۔ظاہر ہے کہ آزادی ملنے کے بعد ملک میں صنعتی ترقی کی رفتار بہت تیز رہی ہے۔ نئے نئے کارخانے اور صنعتیں وجود میں آئی ہے۔ بڑی بڑی صنعتوں کی وجہ سے چھوٹی صنعتوں میں کمی ہوئی ہے اور بہت سے کاریگر بے روزگار ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں جہاں صنعتی انقلاب آیا ہے وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بے کاری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جو کام بہت سے کاریگر گھنٹوں میں کرتے تھے، مشینیں اس کام کو منٹوں میں کردیتی ہیں اور زیادہ خوبصورتی سے کرتی ہیں۔مشینیں جہاں بہت سے آدمیوں کو بیکار کرتی ہیں وہاں طرح طرح کے نئے کام بھی مہیا کرتی ہیں۔ ملک میں خوشحالی لاتی ہیں اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں صنعتی انقلاب کے فائدے اتنے نمایاں نہیں ہوئے جتنے ان کے نقصانات۔ صنعتی ترقی سے بہت کم لوگوں کو روزگار ملا اور بہت بڑی تعداد کو بے روزگاری کا منہ دیکھنا پڑا۔ صنعتی زندگی دور سے دیکھنے میں بہت پُرکشش اور رنگین نظر آتی ہے۔ لیکن جب کام تلاش کرنے والے زیادہ اور نوکریاں کم ہوں تو بے روزگاری بڑھتی ہے۔یہی حال تعلیم کا بھی ہے۔آزادی سے پہلے ملک میں صرف پانچ یونیورسٹیاں تھی لیکن آج ان کی تعداد میں بہت حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ کالجوں اور اسکولوں کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے وہ اور بھی کہیں زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہر سال جتنے طلباء پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں سے بہت کم نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور بیشتر نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں ہر سال کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اس صورتحال کی ایک بڑی ذمہ داری موجودہ تعلیمی پالیسی پر بھی ہے۔ ہماری بیشتر تعلیم محض نصابی ہو کر رہ گئی ہے جو کہ عملی زندگی اور مختلف پیشوں میں کوئی فائدہ یا مدد نہیں دیتی۔ دوسری کمی یہ ہے کہ تعلیم میں ملکی ضرورت کا صحیح خیال نہیں رکھا جاتا، جس وجہ سے بہت سی ڈگریاں کسی نوکری کے حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہوتیں۔ بیروزگاری کو دور کرنے کے لیے ملک کو اپنی صنعتی اور تعلیمی پالیسیوں پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ صنعتی ترقی کا مطلب صرف نئے نئے کارخانے کھول دینا ہی نہیں بلکہ ملکی خوشحالی بھی ہے۔ملک میں بہت سی ایسی صنعتوں کے امکان موجود ہیں جو ملک کے تمام بے روزگار لوگوں کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔ تعلیم کو صنعتی اور ملکی ضروریات کے لحاظ سے شکل دینا چاہیے تاکہ جو لوگ تعلیم حاصل کرکے نکلیں، وہ ملک کے لیے کار آمد ثابت ہو سکیں۔ تعلیم میں فنی اور عملی صلاحیتوں پر زیادہ زور ہونا چاہیے اور صرف انہی لوگوں کو اعلیٰ تعلیم دینی چاہئے جن میں واقعی اس کی صلاحیت ہو۔ باقی لوگوں کو زراعت، تجارت یا دوسرے فنون کی تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اپنے خاندان اور ملک کے دوسرے لوگوں پر بوجھ نہ بنیں بلکہ اپنی روزی خود کما سکیں۔اسطرح کچھ حد تک ملک سے بیروزگاری کا مسلہ حل ہو سکتا ہے،جو کہ اس وقت ایک بڑی لعنت کی شکل اختیار کرچکی ہےاوریہی وہ لعنت ہے جوتمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔