مختار احمد قریشی
آج کے اس ترقی یافتہ اور تیزرفتار دور میں انسان نے سائنس، ٹیکنالوجی اور دنیاوی علوم میں بے پناہ ترقی کر لی ہے مگر افسوس کہ انسان کی اخلاقی اور باطنی ترقی وہیں کی وہیں رکی ہوئی ہے، بلکہ بعض معاملات میں مزید پستی کی طرف جا رہی ہے۔ انسان کا چہرہ مسکرا رہا ہوتا ہے، مگر دل میں نفرت کے زہر ابل رہے ہوتے ہیں۔ وہ بظاہر آپ کے خیرخواہ، ہمدرد، مشیر اور ساتھی بن کر سامنے آتے ہیں، لیکن جیسے ہی آپ کی کامیابی، خلوص یا محنت رنگ لانے لگتی ہے، یہ چہرے اپنا اصلی روپ دکھانے لگتے ہیں۔
یہ ایک المیہ ہے کہ آج کی دنیا میں سچ بولنا، نیکی کرنا، دوسروں کے لیے خلوص رکھنااور سماج میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرنا خطرناک بن گیا ہے۔ وہ لوگ جو ہمدرد بن کر آپ سے گلے ملتے ہیں، وہی دراصل آپ کے خلاف سازشیں تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں منافقت، ان کے دل میں حسد اور ان کی زبان پر مصنوعی شرافت ہوتی ہے اور جب یہ چہرے بے نقاب ہوتے ہیں تو انسانیت شرما جاتی ہے۔
انسانی فطرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص دوسروں کے لیے کچھ بہتر کرنے لگتا ہے، اچھائی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، سماج میں بہتری کی مثال بنتا ہے تو فوراً اس کے خلاف لوگوں کا ایک گروہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود تو کچھ نہیں کرتے البتہ دوسروں کو بھی کچھ کرنے نہیں دیتے۔ ان کی مثال اس ’’نرگس‘‘ کی ہے جو اپنی خوشبو پر نازاں تو ہے، مگر اندھیرے میں مرجھائے پھولوں کو دیکھ کر جلتی ہے۔
مجھے یہ سب کچھ مشاہدے سے نہیں بلکہ ذاتی تجربات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ کئی محنتی اور مخلص افراد کے خلاف ایسے گھٹیا پروپیگنڈے ہوتے دیکھے جن کی سچائی جاننے کے بعد انسان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ لوگ جو نظام کی اصلاح کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، تعلیم، تربیت اور کردار سازی کا علم اٹھاتے ہیں، انہیں کو سازشوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو کام بولتے ہیں، ان کے خلاف خاموش فتنہ انگیزیاں چلتی ہیں۔
بدقسمتی سے میں نے یہ رویے اپنے ہی ادارے، حلقے اور سماجی دائرے میں دیکھے۔ جو افراد دوسروں کی مدد کرتے، نئے تعلیمی اور سماجی منصوبے لاتے، طلباء کے روشن مستقبل کے لیے اپنے وقت اور وسائل قربان کرتے، ان کے خلاف حسد کی آگ میں جلنے والے افراد نے راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کا مقصد کسی اصلاح کو روکنا نہیں تھا، بلکہ صرف اس شخص کو نیچا دکھانا تھا جو کچھ کر رہا ہے اور اکثر ان کے ہتھکنڈے اتنے مکّارانہ تھے کہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔
یہ ’’ عناصر‘‘ کسی مخصوص ادارے یا جگہ تک محدود نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا اصل چہرہ نرم لہجے میں چھپا ہوتا ہے اور ان کی دشمنی بظاہر’’ خیرخواہی‘‘ میں لپٹی ہوتی ہے۔ وہ مشورے دینے والے، حال چال پوچھنے والے، مجلسوں میں بیٹھنے والے ہوتے ہیں، لیکن اندر ہی اندر ان کے ارادے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ان کا ہر قدم اس نیکی کے خلاف ہوتا ہے جو انہیں خود سے کمتر محسوس کراتا ہے۔مگر ایک بات طے ہے کہ یہ عناصر، خود ناکام ہوتے ہیں، ان کا اندرون خالی ہوتا ہے، ان کے پاس اخلاقی وزن نہیں ہوتا، اور ان کا انجام ہمیشہ ذلت و رسوائی ہوتا ہے۔ سچائی کو دبانے والے وقتی طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں مگر مستقل طور پر نہیں۔ ان کی ضد، ان کا تکبر اور ان کا بغض ان کی ’’تربیت‘‘ کا کھلا ثبوت بن جاتا ہےاور وہ اپنی حرکات سے اپنے ہی کردار پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔
ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ہمیں اپنے مشن، نیت اور جذبے پر یقین رکھنا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کے کہنے سے رُکنا نہیں، سازشوں سے گھبرانا نہیں اور جھوٹ کی گرد میں سچ کا چراغ بجھنے نہیں دینا چاہیے۔ اچھا کام کرتے رہنا چاہیے، چاہے کتنے ہی دشمن بن جائیں، کیونکہ دنیا والے صرف ظاہر دیکھتے ہیں، مگر اللہ نیت کو جانتا ہے۔
ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ جو لوگ دوسروں کو کامیاب دیکھ کر جلتے ہیں، دراصل وہ خود اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے دل میں حسد، جلن اور نفرت کا مادہ رکھتے ہیں، اُن کی روح پژمردہ ہو جاتی ہے، وہ چاہ کر بھی کسی کی کامیابی کا جشن نہیں منا سکتے کیونکہ ان کے اندر کا انسان مر چکا ہوتا ہے۔
یاد رکھیں! اگر آپ نے سچائی، ایمانداری، محنت اور خلوص کا راستہ چنا ہے تو راستے میں کانٹے ضرور آئیں گے۔ مگر یہی کانٹے آپ کے قدموں کے نشان بن کر دوسروں کے لیے راہِ ہدایت بنیں گے۔ آپ کی ہر ایک قربانی، ہر ایک تکلیف، ہر ایک صبر کل ایک مثال بن جائے گا۔
بے شک آج کے دور میں نیکی کرنا بغاوت کے مترادف بن گیا ہے، مگر بغاوت وہی کرتا ہے جو سچائی سے جڑا ہو۔ سازشی لوگ وقتی تالیاں بجا سکتے ہیں، مگر تاریخ ہمیشہ سچ بولنے والوں کو یاد رکھتی ہے۔ لہٰذا کبھی مت رُکیے، کبھی مت جُھکیے اور ہمیشہ یاد رکھیے۔’’اچھا کام کرنا کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے، چاہے آپ کے کتنے ہی دشمن بن جائیں۔‘‘
اس دنیا میں سچ بولنے والے، اصلاح کی بات کرنے والے، حق کا علم بلند کرنے والے اکثر اکیلے رہ جاتے ہیں۔ لوگ ان کا ساتھ اس وقت تک دیتے ہیں جب تک فائدہ ہو۔ جیسے ہی ذاتی مفادات پر زد پڑتی ہے، وہی لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ساتھ ہیں، خاموش تماشائی بن جاتے ہیں یا بدتر یہ کہ مخالف کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
اس موقع پر دل ٹوٹتا ہے، ہمت کمزور پڑتی ہے اور سوال ضرور اٹھتے ہیں۔’’کیا میں ہی غلط ہوں؟ کیا سچ کا راستہ واقعی اتنا تنہا ہے؟‘‘لیکن یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں انسان کی اصل آزمائش شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ صرف داد، شہرت یا ساتھ کے لیے اچھائی کر رہے تھے تو شاید رُک جائیں گے۔ لیکن اگر آپ کی نیت خالص ہے، اگر آپ کا مقصد انسانیت کی بھلائی ہے تو تنہائی بھی آپ کو روک نہیں سکتی۔سچ کے راستے پر چلنے والوں کو اگر کوئی مشعل راہ سمجھا جا سکتا ہے تو وہ حضرت امام حسینؓ ہیں جنہوں نے تنہائی میں بھی حق کا علم گرنے نہیں دیا۔ ان کا قافلہ چھوٹا تھا، لیکن ان کی نیت بڑی۔ انہوں نے دنیا کو بتا دیا کہ فتح صرف لشکر کی تعداد سے نہیں ہوتی، کردار کی سچائی سے ہوتی ہے۔
اسی طرح ہر دور میں کچھ لوگ ایسے آئے ہیں جنہوں نے سچائی، ایمانداری اور خلوص کے چراغ جلائے۔ ان کے خلاف سازشیں ہوئیں، وہ تنہا چھوڑے گئے، ان پر الزامات لگے، مگر وہ جھکے نہیں، رُکے نہیں۔ آج وہی لوگ تاریخ کا روشن باب بن چکے ہیں جبکہ ان کے مخالف گمنامی کا شکار ہو چکے ہیں۔
سازشی لوگ ظاہری تدبیریں کرتے ہیں، چالاکیاں کرتے ہیں، چاپلوسی کرتے ہیں، مگر ان کے اندر کا انسان کھو چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے لفظوں سے نہیں، اپنی حرکتوں سے اپنی تربیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ کسی کی مخالفت میں اگر انسان اپنی زبان، اخلاق اور کردار کو بیچ دے تو وہ خود اپنی ہار پر دستخط کرتا ہے۔
اس کے برعکس، وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں، ظلم سہہ کر بھی زبان سے بددعا نہیں نکالتے، جنہیں گالیاں دی جائیں اور وہ دعا کرتے رہیں، یہی اصل فاتح ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک عام بیماری یہ بھی ہے کہ جب ہم خود ترقی نہیں کر سکتے تو دوسروں کو نیچا دکھا کر دل کو تسلی دیتے ہیں۔ دوسروں کی کامیابی کو قبول کرنا بڑا ظرف مانگتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں ظرف کی قلت ہے۔’’یہ کامیاب کیوں ہو رہا ہے؟ اسے کیسے روکا جائے؟‘‘یہ ذہنیت صرف دوسروں کو نہیں بلکہ ہمیں بھی تباہ کر رہی ہے۔ حسد کی آگ سب سے پہلے حسد کرنے والے کو جلاتی ہے۔ غیبت کرنے والا اپنے ہی دل کا سکون برباد کرتا ہے۔ سازشیں کرنے والا خود اپنے ہی کردار کا قاتل ہوتا ہے۔اگر آپ اس وقت خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں، اگر آپ کے خلاف بھی محاذ کھولے گئے ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی محنت کا صلہ الزام کی صورت مل رہا ہے تو رُکیے مت۔ یہ وہ وقت ہے جب آپ کے خلوص کا اصل امتحان ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب آپ کو ثابت کرنا ہے کہ آپ سچ کے راہی ہیں، شہرت کے نہیں۔یاد رکھیں! آپ کا رب ہے، وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔دنیا والے آپ کے خلاف جتنا بھی بول لیں، آپ کی کامیابی یقینی ہے۔حق ہمیشہ غالب آتا ہے۔سچ کی روشنی کو جتنا دبایا جائے، وہ اتنا ہی چمکتی ہے۔سچ بولتے رہیے، اچھا کرتے رہیے، نیکی بانٹتے رہیے اور کردار کی بلندی پر قائم رہیے۔آپ کے دشمن آپ کے کردار کی چمک کو ماند نہیں کر سکتے۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]