Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

بوڑھا چنار

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 4, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
اُس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور تھر تھر کانپنے لگا۔ اُس پر وحشت طاری ہوئی۔ کیونکہ اُس کے سامنے کھڑا چنار کا درخت ناچ رہا تھا۔ جھوم رہاتھا۔ ٹہنیاں اورپتے جیسے مستی کے عالم میں تھے۔ وہ سمجھا بھونچال آگیا لیکن اردگرد دوسرے درخت ساکت کھڑے تھے۔ زمین بھی ہل نہیں رہی تھی۔ صرف چنار کی طرف سے شی شی کی آواز آرہی تھیں۔کوئی طوفان نہیں، زلزلہ نہیں تو پھر چنار کی یہ کیا حالت ہوگئی۔ ابھی وہ اسی محمضے میں تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے چنار سرتاپا روشن ہوا۔ پتے ایسے روشن ہوئے جیسے پتے نہیں بجلی کے قمقمے ہوں۔ چنار پر بیٹھے پروندوں اور رینگ رہے کیڑے مکوڑوں کی چہچہاہٹ سرسراہٹ سے جیسے ساز جھنجنا اٹھے اور فضائ پُر سوز ہوئی۔ سرگوشیوں اور قہقوں کی آوازیں آنے لگی۔ وہ پیسنے میں شرابور ہوا۔ ’’کوئی بھوت پریت، جن یا پری ہے جو مجھے اپنی گرفت میں لینا چاہتی ہے‘‘ وہ اپنے  آپ سے بڑبڑایا ۔
باباصاحب کا قبرستان پر جانا اوروالدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنا روز کا معمول تھا۔ عام طور پر کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ اگر صبح کسی گھریلو مجبوری کی وجہ سے جانہیں پاتا تو شام کو بعد از ادائیگی نماز ضرور فاتحہ خوانی کیلئے جاتا۔ اور آج وہ صبح کے بجائے شام کو قبرستان میں موجود تھا۔ وہ ابھی فاتحہ خوانی سے فارغ بھی نہ ہواتھا کہ اُس کو قبرستان پر ایستادہ عمر رسید ہ چنار کا عجیب و غریب واقعہ دیکھنے کو ملا۔ وہ گھبرایا ہوا سرپٹ دوڑنے لگا کہ ایک آواز نے اُس کی ٹانگیں شِل کردیں ’’ اے آدم زاد بھاگ کہاں رہے ہو؟ میری اس بے انتہا خوشی میں شریک نہیں ہوگے اور اس خوشی کی وجہ نہیں پوچھوگے؟ میرے قریب آئو‘‘ یہ آواز چنار کی تھی۔ بابا صاحب اور بھی خوفزد ہوگیا۔ لیکن لوہے کی چھاتی بناکر چنار کے قریب گیا۔ وہ خود چنار کی روشنی میں نہلا۔چنار سے آواز آئی ’’اے آدم ذاد … خوف اور وہم دل سے نکال۔ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ تمہارا وہم نہیں بلکہ حقیقت ہے۔۔ ’’چنار بھائی !مجھے بتائو یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ خلاف معمول واقعہ کیا ہے؟‘‘ بابا صاحب نے جُرات کرکے پوچھ لیا ۔’’آج میں ہی کیا!میرے ساتھ یہ پرندے اور کیڑے مکوڑے سبھی خوشی سے سرشار ہیں۔ میں تمہیں سب کچھ بتائوں گا پہلے تم اپنی تصحیح کرلو۔ میں تمہارا بھائی نہیں بلکہ تمہارے پردادا کا بھی پردادا ہوں اور صدیوں سے یہاں کھڑا روئیداد زمانہ دیکھ رہا ہوں‘‘ چنارنے کہا۔ ’’اچھا چنار دادا پھر بتائو کہ تمہاری اور ان پرندوںاور حشرات کی خوشی کا راز کیاہے۔ تمہارا وجود جھوم رہا ہے پتے ستارے بن گئے ہیں اور تم روشنی کے مینار میں تبدیل ہوگئے ہو۔‘‘ بابا صاحب نے پوچھ لیا۔ چنار کو اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا اور باباصاحب سے کہا ’’اس کا تعلق تم انسانوں سے ہی ہے۔ بہت مدت کے بعد آج یہ خوشی نصیب ہوئی ہے۔ ورنہ انسان ذات نے ہمیشہ ہماری خوشیاں چھین لی ہیں۔ جتنا انسان ترقی کرتا چلا گیا اتنا ہی ہمارے دکھوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔‘‘ ’’چنار دادا تمہارے دکھ اور پریشانیوں میں انسان کا کیا قصور ہے۔ انسان کیسے تمہاری خوشیاں چھین سکتے ہیں۔ تمہاری تو الگ ایک دنیا اور ہماری الگ دنیا ہے‘‘باباصاحب نے جواب دیا ’’یہ تمہاری خام خیالی ہے انسان ہم سے مربوط اور مشروط ہے۔ دنیا بنانے والے نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں بیجھا ہے۔ تمام حشرات الارض، بناتات و جمادات اور چرندوں پرند حتیٰ کہ درندے بھی اس کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اور اسے آرام و آسائش بہم پہنچانے کے لئے تخلیق کئے ہیں۔ لیکن انسان نے اس لقب کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔ انسان کو نیابت عطا کی گئی ہے اور اپنے کام بنانے میںکسی حدتک خود مختاری عطاکی گئی ہے۔ لیکن انسان نے اپنی خود غرضی اور نفس پرستی سے اس دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا ہے۔ اور وہ قدرت کے نظام کو درہم برہم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ ہماری ہی ذات کو لیجئے۔ ایک دن میں لاکھوں درخت کاٹ کر کیا اتنی تعداد میں یا اس سے نصف بھی بوئے جاتے ہیں؟ اس طرح ایک تو ہماری نسل کو ختم کرنے کے درپے ہے اور دوسرا اپنے لئے ایندھن، آکسیجن اور دوسری ضروریات زندگی نایاب بناتا جاتا ہے۔ نباتات و جمادات کا صفایا کرکے خود ہی آلودگی کی وبا پھیلانے میں معاون و مددگار بن رہا ہے‘‘۔ چنار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ 
’’مہلک ہتھیاروں کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کیلئے ہر جائز وناجائز ایجادات کرتا رہتا ہے۔ اور اپنی ہی نسل کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی کا کیا حشر ہوا، انسان کی لکھی ہوئی تاریخ گواہ ہے۔ لاکھوں انسانوں کے ساتھ ساتھ چرندے پرندے حشرات و نباتات یہاں تک کہ پتھربھی بھسم کرکے رکھدئے ۔۔۔۔۔ اور حد تو یہ ہے کہ ایسے مہلک ہتھیار ایجاد کرنے والوں کو انعامات، اعزازات اور القاب سے نوازا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ ہماری برادری میں سزا کے مستحق ہیں‘‘۔ بابا صاحب تنگ آگیا اور چنار دادا کو اپنی تقریر مختصر کرنے اور اپنے سوال کا جواب جاننے کے لئے اصرار کیا لیکن چنار دادا نے صبر کرنے کی تلقین کی اور اپنا بیان جاری رکھا، رشوت ستائی اور حرام خوری انسان کے نس نس میں رچ بس گئی ہے۔ دولت کی ہوس نے انسان کو اندھا بنادیا۔ اس کو پانے کیلئے کوئی بھی جرم چوری، ڈکیتی، قتل و غارت اور اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے کے لئے پیش پیش ہے۔ بے ایمانی، دغابازی اور دھوکہ دہی کو اپنی چالاکی اور عقلمندی جتلاتا رہتا ہے۔ جو جتنا بے ایمان، دغاباز ،اور بددیانت ہوتا ہے۔ اس کو اتنا ہی عقلمند، مدبر اور زمانہ ساز ہونے کی سند عطا کرتا ہے۔‘‘ 
بابا صاحب بُت بن کر سب سنتا رہا اور چنار سے اپنے سوال کے جواب کا تقاضا کرتا رہا۔ چنار نے اس سے صبرکا اصرار کیا اور بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ، ’’انسان کی کِس کِس خامی کو بیان کروں۔ عورت ذات کو لیجئے، پہلے پہل اس کو تولد ہوتے ہی زندہ درگور کرنا شروع کیا اور جب نئی ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی تو اس کو مادرشکم میں ہی نیست و نابود کرنے کا بندوبست کیا۔ یہی آدم ہے جو آج کل اُس کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتا جارہا ہے اور وہ بھی ایسی آزادی جس سے وہ زن سے نازن ہوتی جارہی ہے۔ جس سے بنے بنائے خاندان ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ اپنی کمپنیوں کی مشہوری کیلئے اُسے اشتہاری کھلونا بناکر اپنی اقتصادت بڑھائے جارہا ہے۔ حالانکہ عورت مقدس و متبرک اور واجب الاکرام جنس ہے۔ بے مثال اور بے بہا مخلوق ہے۔ بے بہاجنس کو جتنا پردے میں رکھا جائے اتنا ہی اس کی قدر و قیمت اور تقدس میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کا وقار دوبالا ہوجاتا ہے۔ لیکن انسان نے خاندان کی اس حرمت اور زینت کو قجہ خانون کی رونق بنایا ہے اور آزادی کے نام پر اس کا استحصال کیا ہے۔۔۔ جہاں بس چلا اس سے کو لہو کے بیل کی طرح محنت و مشقت کرائی اور جہاں یہ طریقہ ممکن نہیں ہوا وہاں بڑے مہذبانہ طریقے سے اس کو سرِ بازار نیلام کردیا۔بابا صاحب کیا کیا میں گِن لوں۔۔ انسان نے خودردنی اشیا میں ملاوٹ کرکے اپنے ہی ذات برادری کے علاوہ نباتات کو بھی نت نئی بیماریوں میں مبتلا کردیاہے، حتیٰ کہ بچوں کی غذائوں میں ملاوٹ کرکے ان ننھے مُنے فرشتوں کو بھی نہیں بخشا ہے اور اُن کو مختلف امراض میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور ان امراض کے لئے دوائیاں، الاماں والحفظ!وہ بھی نقلی،جن سے ان بیماریوں میں اور بھی اضافہ ہوتا رہا۔‘‘ بابا صاحب اُکتا گیا۔ وہ اب راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اسلئے اُس نے بوڑھے چنار کی بات کاٹ کرکہا ’’چُنار دادا سب انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ تم نبی نوع انسان کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے جارہے ہو اور ایک ہی ترازو میں تولتے ہو۔ انسانوں میں ایسی برگذیدہ ہستیاں اور درخشندہ ستارے بھی گذرے ہیں، جن کے تمام مخلوقات پر احسانات ہیں انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کی بھلائی و بہبودی کیلئے وقف کیا ہے اور آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔‘‘
چنارنے کہا  ’’ہاں بابا صاحب تمہاری اس بات میں دم ہے۔ سب انسان ایک جیسے نہیں، سب دنیا ابھی نیک بندوں سے خالی نہیں ہوئی ہے اور جب خالی ہوگی تب یہ دنیا خوبخودمٹ جائے گی۔ ابھی نیک بندے باقی ہیں۔ جو تمام انسانیت اور حشرات، نباتات و جمادات وغیرہ کے خیرخواہ ہیں اور جن کو ابھی انسانیت کی فکر دامنگیر ہے‘‘۔ چنارنے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’آج صبح زمین کا یہ ٹکڑا مشکبار ہوا۔ ہر طرف خوشبو پھیل گئی۔ ان مرقدوں میں مدفون تمہارے ساتھی بھی اس خوشبو سے محظوظ ہوئے۔ میری اور میری  بانہوں میں پلنے والے ان پرندوں، کیڑے مکوڑوں کی رگ رگ میں خوشی کی لہر دوڑگئی اور سکون نصیب ہوا۔ کیونکہ آج بہت مدت کے بعد انسانیت کے علمبردار حشرات، نباتات وجمادات اور چرندوں پرندوں کے غمخوار ایک نیک بندے کو میرے سائے میں دفن کیا گیا۔ یہی ہماری خوشی کا راز ہے۔ 
���
رابطہ؛9796953161
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ڈی پی زونل صدر ترال دل کا دورہ پڑنے سے فوت
تازہ ترین
سرینگر میں 37.4ڈگری سیلشس کے ساتھ 72سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
برصغیر
قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، : چیف جسٹس آف انڈیا
برصغیر
پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?