ملک منظور
ایک کھنڈر میں ایک بوڑھا مچھر رہتا تھا ۔اس کے ساتھ اس کا خاندان بھی رہتا تھا۔اسی کھنڈر کے ایک کونے میں ایک مکڑا بھی رہتا تھا۔مکڑا مچھروں کا پرانا دشمن تھااس لئے وہ ہمیشہ ان کو شکار کرنے کے لئےجال بُنتا رہتا۔ نئی نسل اس جال کی چال سے بےخبر تھی کہ جال کے پاس سے جو گذرتا ہے پھنس جاتا ہے۔لہذا وہ مکڑے کے جال میں آسانی سے پھنس جاتے۔اس طرح مکڑا ان کو اپنی خوراک بنا لیتا تھا ۔بوڑھے مچھر کے کئی بیٹے اور بیٹیاں مکڑے کے جال میں پھنس کر اپنی جان گنوا چکے تھے۔ وہ مکڑے کی اس دشمنی اور حرکت سے بہت تنگ اوردکھی تھا ۔ایک دفعہ اس کی بیوی گھر سے باہر کسی کام کے لئے نکلی ۔اچانک اس کو چکر آگیا اور وہ مکڑے کے جال میں گرگئ ۔بوڑھے مچھر نے مکڑے سے بہت منت سماجت کی کہ وہ اس کی بیوی کی جان بخش دے لیکن ظالم مکڑے نے اس کی ایک نہ سنی ۔ مکڑے نے بوڑھے مچھر کے گھر کے آس پاس بہت سارے جال بنے تاکہ وہ مچھر کے خاندان کا صفایا کرسکے لیکن جس کو اﷲ رکھے اس کو کون چَکّھِے۔
بوڑھے مچھر نے عقل سے کام لیا ۔وہ ہمیشہ احتیاط سے گھومنے نکلتا تھا اور اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا تھا کہ وہ اس سے پوچھے بغیر باہر نہ نکلے ۔بیٹے نے بھی والد کی بات مانی اور جان بچائی ۔ بیٹا جوان ہوگیا ۔اس کی شادی ہوگئی اور پھر بچے ۔ایک دن بوڑھے مچھر کی بہو کسی انسان کا خون پینے گئی تو واپس نہ لوٹی ۔ بیچارہ بوڑھا مچھر بہت غمگین رہتا۔ اس کا بیٹا کام کے سلسلے میں باہر جاتا تھاتو بچوں کو اپنے والد کے پاس چھوڑ جاتا ۔ خون کا پیاسا مکڑا بچوں کا شکار کرنے کی تاک میں رہتا تھا کیونکہ بچے اکثر شرارتی ہوتے ہیں اور اس کا آسان ہدف بنجاتے ہیں۔
بوڑھے مچھر کو زندگی کا خوب تجربہ تھا ۔ وہ اپنے آس پڑوس سے واقف تھا۔ وہ خونخوار مکڑے کی عادتوں کو سمجھتا تھا لیکن بچوں کو یہ سب سمجھانا مشکل تھا ۔بچے بڑوں کی باتوں پر عمل کہاں کرتے ہیں۔ بوڑھا مچھر بہت پریشان رہنے لگا ۔وہ سوچتا تھا کہ نئی نسل جلدباز ہے اور جلدبازی شیطان کا کام ہے ۔ان کو کس طرح دنیا کے سرد و گرم سے واقف کرایا جائے۔ اس نے بچوں کو کہانیاں سنانا شروع کیں ۔ان کہانیوں میں اچھی اچھی باتیں ہوتی تھیں ۔بچے ان باتوں کو سمجھنے لگے ۔وہ دادا جی کے پاس بیٹھتے تھے۔ان کے ساتھ گھومنے جاتے تھے۔داداجی نے ان کو مکڑے کی حرکتیں اور باتیں بتائیں ۔اس کا جال دکھایا اور سمجھایا کہ کس طرح سے وہ اس جال سے بچ سکتے ہیں۔ بچے داداجی سے اس کے بچپن کے بارے میں پوچھتے تھے ۔دادا جی بھی موقعہ دیکھ کر ان کو دنیا کےبارے میں اچھی بری باتیں بتاتے تھے ۔آس پاس موجود دشمنوں کے بارے میں بتاتے تھے۔انکی مکاریوں، شیطانیوں اور خطرناک حربوں سے آگاہ کرتے تھے۔ بچے دادا کی باتیں غور سے سنتے اور اس پر عمل کرنے کا وعدہ کرتے۔ان کی معلومات میں اضافہ ہونے کے ساتھ ان کی صلاحیتوں میں نکھار آنے لگا اور وہ طاقتور نسل کے طور پر ابھرنے لگے ۔ادھر مکڑا لگاتار انبچوں کو فریب دینے کی کوششیں کرتا رہتا لیکن وہ لگاتار ناکام ہوجاتا۔جب کئی دنوں تک وہ خالی ہاتھ گھر لوٹتا رہا تو بیوی نے پوچھا ” لگتا ہے تم کمزور ہوگئے ہو اسی لئے کوئی شکار نہیں کرپارہے ہو ”
” نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں جن معصوم مچھروں کا شکار آسانی سے کرتا تھا وہ ننھے منے مچھر اب چالاک بنگئے ہیں ۔ وہ میرے جال کو دور سے ہی پہچانتے ہیں اور راستہ بدل لیتے ہیں۔” مکڑے نے مایوس لہجے میں کہا
” کیا یہ نئی نسل ذہین اور فہیم ہے؟” بیوی نے پوچھا
” بات ذہانت کی نہیں ہے بلکہ سمجھ کی ہے ۔یہ بچے داداجی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔انہوں نے زندگی گزاری ہے لہٰذا وہ سچ اور جھوٹ ، حق اور باطل اور دوست اور دشمن سے آشنا ہیں ۔یہی گُن جب بچوں میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ چالاک اور زیرک بن جاتے ہیں ۔” مکڑے نے کہا
” تو پھر ہمارے بچے کیا کریں گے ۔وہ تو بھوک سے مرجائیں گے ۔ ” بیوی نے پریشان لہجے میں کہا
” گھبرائو مت ۔سارے بچے بڑوں کی باتوں پر عمل نہیں کرتے ہیں۔خاص کر آج کل کے بچے وہ تو موبائل فون سے نظر ہی نہیں ہٹاتے ہیں۔”
” پھر کیا کریں گے ؟” بیوی نے پوچھا
” انتظار کرو ۔میں جلدی بچوں کی معصومیت کا اسمارٹ طریقہ ڈھونڈ لوں گا۔یہ بوڑھا مچھر بھی کب تک زندہ رہے گا۔اس کے مرتے ہی یہ قوم یتیم ہوجائے گی ۔پھر دیکھنا ہمارے مزے ہی مزے ہونگے۔” مکڑے نے کہا
چند دنوں کے بعد بوڑھا مچھر فوت ہوگیا ۔مکڑا بہت خوش ہوا ۔اس نے پھر سے جالے بننے شروع کئے ۔لیکن وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہ چھوٹے چھوٹے مچھر دادا جی کی نصحیت پر عمل کرنے سے مکڑے کی استادیوں سے آسانی سے بچ نکلتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے ہمیشہ کہتے تھے کہ داداجی کی نصیحتیں ایک عظیم تحفہ ہیں ۔وہ بچے خوش قسمت ہیں جن کے دادا دادی زندہ ہیں اور وہ ان کی صحبت میں رہ کر ان کی نصیحتوں پر عمل کرکےفیض یاب اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ اس بزرگوں کا سایہ چھوٹوں کے لئے نعمت ہے۔
���
کولگام کشمیر