اشفاق سعید
سرینگر // جموں و کشمیر میں 60فیصد آبادی کو اُس زبان میں تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے جو وہ بخوبی سمجھتے ہیں۔جبکہ یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ ٹیم کے مطابق، دنیا کی 40 فیصد آبادی کو اس زبان میں تعلیم حاصل نہیں ہے جو وہ بولتے یا سمجھتے ہیں۔کچھ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ تعداد 90 فیصد تک ہے۔ گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ ٹیم نے “زبانوں کی اہمیت: کثیر لسانی تعلیم پر عالمی رہنمائی” کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ اس نے نوٹ کیا ہے کہ 31 ملین سے زیادہ نوجوان تعلیم میں زبان کی رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔یہ رپورٹ مادری زبانوں کے عالمی دن کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر مرتب کی گئی ہے، جس میں مادری زبانوں کے تحفظ اور اس کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے کوششوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ہندوستان نئی قومی تعلیمی پالیسی (NEP) کو نافذ کرنے کے عمل میں ہے جو کثیر لسانی تعلیم کی وکالت کرتی ہے۔ گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ ٹیم کا کہنا ہے کہ” دنیا بھر میں 40 فیصد لوگ اس زبان میں تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں جو وہ روانی سے بولتے اور سمجھتے ہیںاور کچھ ممالک میں، یہ تعداد 90 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 18.8 فیصد آبادی انگریزی بولتی ہے۔ 13.8% آبادی چینی، 7.5% ہندی اور 6.9% آبادی ہسپانوی بولتی ہے۔دیگر وسیع پیمانے پر بولی جانے والی زبانوں میںفرانسیسی، عربی، بنگالی، روسی، پرتگالی اور انڈونیشی شامل ہیں۔دنیا کی تقریباً 43% آبادی دو زبانوں پر مشتمل ہے، یعنی وہ دو زبانوں کے درمیان آسانی کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر، 66% انگریزی بولنے والوں نے اسے دوسری زبان کے طور پر سیکھا۔کشمیری زبان عالمی آبادی کا نسبتاً کم فیصد بولتا ہے۔ اگرچہ یہ وادی کشمیر میں آبادی کے ایک اہم حصے کی مادری زبان ہے، لیکن یہ ملکی سطح پر بڑے پیمانے پر نہیں بولی جاتی ہے۔ اسے عام طور پر ہندوستان کی طے شدہ زبانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو جموں اور کشمیر کے علاقے میں تقریباً 50% آبادی میں بولی جاتی ہے۔
کشمیری ایک شیڈول زبان ہے اور اندازوں کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی کے 50% سے 85.28% فیصد میں یہ بولی جاتی ہے۔ لیکن سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صرف 20فیصد آبادی اس کو پڑھ سکتی ہے یا اسے لکھ سکتی ہے۔بھارت میں بولی جانی والی زبانوں میں کشمیری زبان کا 16واں نمبر ہے جو0.56% جبکہ ڈوگری 0.21% میں بولی جاتی ہے اور اسکا نمبر 20واں ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت میں اردو زبان کا نمبر 7واں ہے اور 4.19% فیصدمیں یہ بولی جاتی ہے۔نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ جہاںنوجوانوں کی زندگیوں میں ٹیکنالوجی کے وسیع اثر و رسوخ کی وجہ سے انقلاب آیا ہے ، مادری زبان میں لکھنے اور بولنے میں کمی آرہی ہے۔ٹیم کے تجزیے کے مطابق، 2010 اور 2022 کے درمیان دونوں گروپوں کے درمیان فرق اوسطاً بڑھ گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو گھر میں مادری زبان نہیں بولتے ،نقصان کے زیادہ خطرے میں ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں کشمیری زبان ان مقامی یا علاقائی زبانوں میں سر فہرست ہے، جو بولی تو جاتی ہے لیکن پڑھی یا لکھی نہیں جاتی۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کشمیری زبان نہ سیکھنے کی بڑی وجہ چھوٹے بچوں کیساتھ اردو، ہندی یا انگریزی زبانوں میں بات چیت کرنا ہے۔جموں و کشمیر کے محکمہ سکول ایجوکیشن میں کشمیری زبان کے اساتذہ پرائمری سے لے کر ہائیر سیکنڈری تک مختلف سطحوں پر طلبا کو کشمیری زبان سکھانے کے ذمہ دار ہیں۔ سرکاری سکولوں اور ہائیر سیکنڈری سکولوں میں کشمیری زبان بطور مضمون پڑھائی جاتی ہے، لیکن اسے ضافی مضمون (Optional)کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے ، یعنی یہ منتخب کرنے کیلئے دستیاب ہے لیکن لازمی نہیں ہے۔کشمیری زبان کے اساتذہ کا تقرر اکثر مسابقتی امتحانات کے ذریعے محکمہ سکول ایجوکیشن کے ذریعے کیا جاتا ہے۔کشمیری زبان کو کشمیری عوام کے ثقافتی ورثے اور شناخت کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے اور اس کا تحفظ محکمہ تعلیم کی ترجیح ہے۔کشمیری زبان کو مختلف سطحوں پر بشمول 10+2 (ہائر سیکنڈری) میں ایک انتخابی مضمون کے طور پرسکول کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں کشمیری کا ایک شعبہ بھی ہے جو زبان میں تدریس اور تحقیق کے لیے عملہ مہیا کرتا ہے۔