آبی ذخائر سے مالا مال ریاست جموں وکشمیر میں قلت ِآب کا مسئلہ دن بدن سنگین رخ اختیا رکرتاجارہاہے اور اس بات کا اندیشہ پیدا ہونے لگاہے کہ اگرماحولیاتی توازن کے بگڑنے کا سلسلہ اسی طرح سے جاری رہاتو عنقریب ریاست کو قحط سالی کی صورتحال کاسامناکرناپڑسکتاہے ۔بلاشبہ ماحولیاتی توازن بگڑنے سے ریاست میں روایتی آبی ذخائر سکڑتے جارہے ہیں جو پانی کی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے تاہم متعلقہ حکام بھی انتہائی درجہ بے حس بنے ہوئے ہیں جو دہائیوں پرانی اور بوسیدہ ہوچکی پائپ لائنوں، جن کی وجہ سے ہزاروں لیٹر پانی ضائع ہوجاتا ہے، کی مرمت کیلئے اقدامات نہیں کررہے اور نہ ہی نئی واٹر سپلائی سکیموں کی مناسب دیکھ ریکھ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ ان دنوں برسات کی وجہ سے جموں خطہ میں پانی کی قلت اتنی زیادہ نہیں لیکن لوگوں کو پینے کیلئے صاف پانی سپلائی نہیں ہورہا جس کے باعث بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے ۔اگر بغور دیکھاجائے تو آبادی میں کئی گنااضافہ کے باوجود محکمہ پی ایچ ای آج بھی اسی پرانے نظام پر تکیہ کئے ہوئے ہے جو کئی دہائیوں قبل روبہ عمل لایاگیاتھا۔بدقسمتی سے ریاست بھر میں دہائیوں قبل بچھائی گئی پائپ لائنوں کی مرمت نہیں کی جارہی جو بوسیدہ ہوکر نہ صرف پانی ضائع ہونے کا سبب بن رہی ہیں بلکہ ان میں مٹی اور دیگر گندگی داخل ہوکر پانی کو غلیظ کردیتی ہے ۔غالباًہر ایک علاقے کے عوام کی یہ شکایت ہے کہ ان کو سپلائی کرنے والے پائپ لائن بوسیدہ ہوچکی ہے جس کی مرمت نہیں کی جارہی ۔اگر پائپ لائنوں کی مرمت کی جائے اور موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے از سر نو پائپ لائنیں بچھائی جائیں تو بہت حد تک قلت ِآب کا مسئلہ حل ہوسکتاہے اور ضائع ہورہے پانی کا بچائوکیاجاسکتاہے تاہم حکام ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور وقت ِضرورت محکمہ سے ایک پائپ کا ملنا بھی دشوار ہوگیاہے ۔نئی پائپ لائنوں کی فراہمی اور پہلے سے نصب پائپوں کی مرمت کے برعکس بہت سی پائپ لائنوںکوسرے سے ہی اکھاڑ پھینکاگیاہے اورحالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پانی کی سپلائی جاری رکھنے کیلئے لوگوں اور خود محکمہ کے ملازمین کو ان بوسیدہ پائپوں کوپالی تھین لفافوں اور رسیوں سے باندھناپڑتاہے ۔اگرچہ بوسیدہ پائپ لائنوں کا مسئلہ شہرودیہات میں ہر جگہ درپیش ہے تاہم شہری علاقوں میں ان لائنوں کی حالت زیادہ ہی خراب ہے جہاں یہ پائپیں سڑکوں او گلیوں تلے دب گئی ہیں جن میں کوڑا کچرا اور یہاں تک کہ انسانی فضلہ بھی جمع ہوجاتاہے ۔ پانی بچائو کے نام پرنمائشی مہم چلانے کے بجائے اگر حقیقی معنوں میں خود محکمہ کی طرف سے پانی کے تحفظ کے اقدامات کئے جاتے تو یہ صورتحال ہر گز درپیش نہ ہوتی تاہم محکمہ کے افسران اور ملازمین کو یہ پرواہ نہیں کہ ان کی نظروں کے سامنے پائپ لائنیں تباہ ہورہی ہیں اور سکیمیں ناکارہ بنتی جارہی ہیں ۔ملازمین کی غفلت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ گزشتہ دنوں راجوری ضلع میں انتظامیہ کی طرف سے مختلف اسکوارڈ تشکیل دے کر ایک ساتھ 63واٹر پمپنگ اسٹیشنوں کا اچانک معائنہ کروایاگیا جس دوران 22پمپنگ اسٹیشن مقفل پائے گئے جہاں ایک بھی ملازم ڈیوٹی پر موجود نہ تھا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے سے نصب شدہ پائپ لائنوں کی فوری طور پر مرمت کی جائے اور ساتھ ہی آبادی کو دیکھتے ہوئے ازسر نو پائپ لائنیں بچھائی جائیں نہیں تو آنے والے وقت میں حالات بدسے بدتر ہوجائیں گے اور پانی کی قلت کا مسئلہ بڑھتاہی جائے گا۔محکمہ یہ کہہ کر اپنا پلو نہیں جھاڑ سکتاکہ اس کے پاس رقوم کی کمی ہے بلکہ اسے بہر صورت اقدامات کرکے آج کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے سپلائی کا انتظام کرناچاہئے ۔