سرینگر//بوسیدہ بجلی نظام کی وجہ سے ترسیلی و تقسیم کاری نقصان سے دوچار ریاستی حکومت ایک طرف بجلی بحران کا رونا رورہی ہے لیکن دوسری جانب اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ریاستی حکومت بجلی نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے دستیاب رقوم صرف کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے ۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آر اے پی ڈی آرپی سکیم کے تحت وادی کے بوسیدہ بجلی نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے اگرچہ مزکری سرکار کی جانب سے ریاستی سرکار کو 2ہزار کروڑ روپے واگزار کئے گئے ہیں لیکن وادی میں اس سکیم کے تحت کام نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ جموں میں اس سکیم کے تحت 40فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ۔ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سابق منموہن سنگھ حکومت نے پورے ملک میں بجلی کی سپلائی اور ترسیلی نظام کو بہتر کرنے کے لئے مختلف ریاستوں کوآر اے پی ڈی آرپی( Restructured accelerated power development Reforms Program) کے تحت رقوم فراہم کرنے کی منظوری دی،جبکہ 2ہزار کروڑ روپے ریاست جموں وکشمیر کے 30قصبوں کیلئے بھی فراہم کئے گئے۔اس سکیم کا مقصد بجلی کی پرانی ترسیلی لائنوں اور بوسیدہ کھمبوں کو بدلنا تھا اور ساتھ ہی تین سے چار گھرانوں کیلئے الگ بجلی ٹرانسفامر نصب کرنا تھے جس سے صارفین اتنی ہی بجلی خرچ کرتے جتنا ٹرانسفارمر لوڈ اٹھا سکتا تھا جس سے بجلی چوری پر بھی قابو پایا جاسکتا تھا اور ترسیل و سپلائی میں جو خامیاں ہیں، انہیں بھی دور کرنے میں مدد ملتی۔اس سکیم کا پیسہ جموں کے 11قصبوں ،کشمیر کے 17اور لداخ کے 2قصبوں کیلئے واگزار لیا گیا تھا ۔محکمہ بجلی میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس سکیم کے تحت 2مرحلوں میں مرکزی سرکار کی جانب سے پیسہ واگزار کیا گیا ہے ۔پہلے مرحلے کے تحت سال 2011میں ڈیڑھ سو کروڑ اور سال2013میں دوسرے مرحلے کے تحت باقی ماندہ رقم فراہم کی گئی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت اگرچہ جموں میں کام چل رہا ہے لیکن کشمیر میں یہ کام بڑی ہی سست رفتاری کے ساتھ چلتا ہے یایوں کہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ذرائع نے مزید بتایا کہ سرکار اور محکمہ بجلی اس سکیم پر توجہ نہیں دے رہا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر اس سکیم کے تحت کام شروع نہ ہو سکا تو یہ پیسہ واپس مرکز کو چلا جائے گا ۔ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جموں میں اس سکیم کے تحت نہ صرف بجلی کے کھمبے بلکہ آئی ٹی سیکٹر کے تحت بھی 40فیصد کام ہوا ہے جبکہ کشمیر وادی میں کام نہ ہونے کے برابر ہے اور یہاں کام سست رفتاری سے ہو رہا ہے ۔محکمہ بجلی نے دو برس قبل اگرچہ یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سکیم کے تحت کام 2015میں مکمل کیا جائے گا لیکن 2016بھی ختم ہونے کو ہے ،کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔قابل ذکر ہے کہ وادی میں اس وقت بجلی کا نظام انتہائی ابتر ہے جس کے نتیجے شہر ودیہات میں اکثر مقامات پر بجلی کے کھمبوں کی جگہ ترسیلی لائینوں کو معمولی پیڑوں کے ساتھ باندھا گیا ہے جس سے نہ صرف حادثات رونما ہوتے ہیں بلکہ موسم سرما میں کئی کئی دنوں تک بجلی بندرہتی ہے ۔ محکمہ بجلی کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ہے کہ وادی میں نامساعد حالات کی وجہ سے کام نہیں ہو سکا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ وادی کے بہت سے علاقوں میں اس سکیم کے تحت کام چل رہا ہے اور اگر ہم نے ایسے جگہوں کی نشاندہی کی اور یہ میڈیا میں آگیا تو اس سے لوگ کام میں رکاوٹیں پیدا کریں گے ۔ تاہم اس سکیم پر کام کرنے والے محکمہ کے اسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر شبیر احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سکیم کے تحت آئی ٹی سیکٹر میں 90فیصد کام ہو گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پوری ریاست کے 30قصبوں میں آئی ٹی شعبہ کیلئے انہیں 151.99کروڑ روپے واگزار ہوئے ہیں جس کے تحت 90فیصد کام شروع ہوگیاہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سکیم کے تحت پہلے مرحلے کیلئے جو پیسہ آیا، اُس میں سے کچھ پیسے کو بمنہ میں آئی ٹی آئی کے کام پر خرچ کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ شہر میں زکورہ علاقے کو چھوڑ کر باقی تمام علاقوں میں آئی ٹی کے تحت کام ہوا ہے ،جبکہ قصبہ جات میں بھی کام کئے جا رہے ہیں ۔