طنز وظرافت اصل میں ایک باشعور اور حساس طنز نگار کا معاشرے میں پھیلی برائیوں اور بدعتوں کے خلاف ایک فن کارانہ ردعمل ہوتا ہے ۔ یہی عنصر ہمارے معروف سماجی رہنمااور سرکردہ مزاح نگارظریف احمد ظریف ؔ صاحب کے کلام میں بھی قدم قدم نمایاں ہے۔ وہ سماج کی بے اعتدالیوں پر برہم نظر آتے ہیں اور اپنے کلام میں ان بے اعتدالیوں کی بے باکانہ نشان دہی بلکہ نشتر زنی کررہے ہیں۔
تہذیب وشرافت کے دائرے میں سماج پر چوٹ کرنا ایک فن ہے اور ظریف صاحب اس میں چابکدست ہیں۔
ظریف احمد ظریفؔ صاحب ہماری وادی کے ایک مشہور طنز نگار اور پختہ گو شاعر ہیں۔ ظرافت کے ادب میں ان کا ایک خاص مقام ہے اور ا س صنف میںاُن کی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ وہ نثر اور نظم دونوں اصناف میں لکھتے ہیں۔ ان کی کئی تخلیقات بازار میں آچکی ہیں جن میں ’’تارن گری‘‘ کو بڑی شہرت ملی۔ غالبا ًیہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی تازہ تصنیف’’ بوزے نہ کانسہ زاری ‘‘ میں بھی زیادہ تر وہی مواد شامل کرنا پڑا جو ان کی پچھلی کتاب ’’تارن گری‘‘ میں ہے۔ ان کی کئی تخلیقات کا دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا ہے او ر انہیں بہت پسند کیا گیا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں ظریفؔ صاحب نے دل سوز اور درد انگیز انداز میں ان سوختہ سامانیوں، بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کا نظم کے پیرائے میں بخوبی ذکر کیا ہے جو اس بد نصیب وادی کو اپنوں اور غیروں کے ہاتھو مقدرہوئیں۔ استحصال اور لوٹ کھسوٹ کو صاحب تصنیف نے ’’تارن گری‘‘ کی اصطلاح میں بڑے دلنشین انداز میںپیش کیا ہے ؎
وولرس ووان از دانہِ لک
آنچار ڈل سہ تہ باگرکھ
یعنی جھیل ولر اور جھیل ڈل اور آنچار سر جو اس وادی کی زینت تھے اور اس کی خوب صورتی کی علامات تھے اور جو یہاں کا سرمایہ تھا، ان کو بھی نہیں بخشا گیا اور ناجائز قبضہ کرکے اس قومی سرمائے کو ذاتی جائیداد بناکر بانٹا گیا ؎
کورین چھ واریو گوڈہ پریژھان
نوش کور کتہ سروس کران
کیاہ گریڈ چھس کیژھ نوکری
تارن گری تارن گری
ظریف زبان ِ طنز میں کہتے ہیں کہ اس عمومی استحصالی آندھی سے شادی بیاہ کے مقدس بندھن بھی نہیں بچ پائے ہیں اور یہ استحصالی ہتھکنڈے ازدواجی رشتوں پر بھی حاوی ہوئے ہیں۔ پہلے وقتوں میں شادی بیاہ کے حوالے سے لڑکی کی سیرت اور صبر واخلاق کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا مگر اب معاشرے میں مادیت اس طرح داخل ہوچکی ہے کہ پہلے والے وہ پُر مہک اخلاقی اقدار فرسودہ سمجھے جارہے ہیں اور آج لڑکے والوں کے یہاں پیغام نکاح آئے تو سب سےا ول لڑکی کے حوالے سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ آیا وہ نوکری کرتی ہے کہ نہیں؟ اس کا عہدہ کیا ہے اور تنخواہ کتنی لیتی ہے؟ چائے پانی کماتی ہے؟
بد بختانہ صورت حال پر ظریفؔ کے اندر کاشاعر ماتم وبین کرتا ہے اور چلّاچلّا کر کہتا ہے: ہائے یہ استحصال، ہائے یہ دغابازی!
کتھ ونی ظریفنؔ زیو ژٹتھ
جگرس اندر چھس ویہہ کھٹتھ
وانگج بنیومت چھس گری
تارن گری تارن گری
شاعر کہتا ہے کہ زمانے کی بدحالیوں سے جو لاوا میرے دل میں پک گیا ہے ،اسی کا کچھ مواد میں نے لفظوں کے خول میں اُتارا ہے۔ میں تم سے کیا کہوں مجھے اپنی ہی کھیتی کا مزرعہ بنایا گیا ہے، میر اپنے ہی مکان میں کرایہ دار کی حیثیت بنادی گئی ہے۔:’’ہائے یہ استحصال، ہائے یہ دغابازی!
ظریفؔ صاحب کی اس تازہ تصنیف ’’بوزے نہ کانسہ زاری!‘‘ کا سرورق (گیٹ اَپ) دیدہ زیب ودل کش ہے ،جب کہ کلام ماشااللہ کی خوبصورتی ، تاثیر ، چاشنی اپنی مثال آپ ہے۔ ظریف ؔصاحب نے اپنے کلام میں معاشرے میں پھیلی برائیوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔ ظرف کے معنی وسیع ہیں۔ تہذیب، صلاحیت، استعداد، زیرکی، عمدگی، ہنر، نفاست، لیاقت کے خصائل بھی ظرف کی تعریف میں آتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ظریفؔ اس کو کہیں گے جو خوش خصال ہو، یعنی اس میں خوش خلقی، تمیز، شائستگی ہو اور وہ اچھا صحبت یافتہ ہو۔ تاہم لغت میں جو ظریف ؔکے معنی بتائے گئے ہیں وہ ظرافت سے متعلق ہیں یعنی با مذاق شخص، خوش طبع، لطیفہ گو، ہنسی دل لگی کرنے والا۔ظرافت ادب کا حسن وجمال ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ قلب کی ظرافت اس کی فہم و فراست ہے ، لسان کی ظرافت اس کی بلاغت ہے۔میرے نزدیک ظریف احمد ظریف ؔصاحبِ ظرف اور ظرافت کا مرکب ہیں۔ لکھتے تو طنز ومزاح ہیں مگر مزاج میں شوخی بھی ہے اور طبیعت پر تصوف کا رنگ بھی غالب ہے۔ کئی کشمیری شعرا کا کلام اُنہیں زبانی یاد ہے۔ ذاتی طور جب بھی ظریف ؔ کے ساتھ میری کبھی مجلس آرائی ہوئی تو وہ احد زرگر کا کلام سنانا نہ بھولے۔ ان کی زبان سے جب جب میں نے احد زرگر کا کلام سنا تو میں اُچھل پڑا،مگر میرا تجربہ ہے کہ بعض اوقات وہ جلال میں آکر یا کبھی کسی ’’خاص‘‘ واقعہ کا تذکرہ کرتے وقت ’’شدید‘‘ کلمات کا بھی تھوڑا سا استعمال کرتے ہیں۔ میں ان کی ایسی باتوں کو ’’لسانی کوتاہیوں‘‘ کی عبارت میں تو نہیں لاسکتا، صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ادب کے جس منصب عالیہ پر کھڑے ہیں اور خدا نے اُنہیںجو رتبہ بخشا ہے، اس میں لغزش کے اعتبار سے زبان کی ہلکی سی جنبش بھی ذوق ِسماعت پر گراں گزرسکتی ہے، مگر یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ظریفؔ صاحب ظرافت کے حوالے سے کشمیری ادب کا بڑا سرمایہ ہے۔اپنی اس تازہ تصنیف میں بھی انہوں نے میرا وہ 'تحقیقی جائزہ شامل اشاعت کیا ہے، جو پہلے ہی ان کی تصنیف ’’تارن گری ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ان کی اس تازہ تخلیق میں جو منظوم کلام درج ہے ،وہ یوں تو آسان لفظوں پر مشتمل ہے اور اس کو سمجھنے میں قاری کسی دماغی مشقت میں نہیں پڑتا مگر اس کلام میں کچھ اشعار ایسے ہیں جن میں شعری حسن بدرجۂ اتم موجود ہے اور جن میں ذائقے کی لطافت بھی ہے۔ ان اشعار پر غور کیا جائے تو وہ کثیر المعانی میں کھل جاتے ہیں ؎
شعورچ تھپ تہ نے آسیم جنونس
کھسن نتہ کاتی منصور از تہ دارس
یعنی یہ شعور کا پہرے دار ہے جو میرے جنون کو روکے رکھے ہوئے ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مجھ سے ایسی باتیں بھی ظاہر ہونے کا امکان تھا جن سے انقلاب برپا ہوجاتا ؎
چھکراوی وقتکی واولنی
بٹھی بٹھی پکتھ رٹی آولنی
ژھانٹل تہ ما تارس تری
تارن گری تارن گری
یعنی وقت کے تھپیڑوں نے ہمیں تتر بتر کردیا۔ ہم نے بچنے کی کوشش کی تو گردآب نے پکڑ لیا۔ بڑے بڑے تیراک تک لڑھک گئے۔
ہائے یہ استحصال ہائے یہ دغابازی!
طنزومزاح کیا ہے، اس موضوع پر پہلے ہی روزنامہ ’’کشمیر عظمیٰ ‘‘میں میرا ایک مفصل مضمون چھپا ہے ،اس لئے اسے دہرانا مناسب نہیں۔ جو بات میں نے پہلے ہی بیان کی ہے اسی کو دوبارہ لکھنا ادبی نزاکت کے خلاف بات ہوگی، جب کہ اس بات کو کہنے میں زیادہ وقت بھی نہ گزرچکا ہو۔تاہم ان خیالات کا پہلے بھی اظہار کرچکا ہوں اور اب یہاں بھی اعادہ کررہا ہوں کہ انسان اعصابی طنابوں میں کَھسا رہتا ہے اور ان میں کھنچاؤ اسے غمگین بنائے رکھتا ہے۔مزاح ان طنابوں کو ڈھیلا کردیتا ہے اور تناؤ دھیما بنا دیتا ہے۔ اب اگر مزاح کی آڑ میں ہلکے پھلکے انداز میں اصلاحی اور فلاحی بات بھی بتائی جائے تو دوسرے کا دماغ اس کو بھانپ بھی لیتا ہے اور ذہن میں جگہ بھی دیتا ہے۔ اِس طرح مزاح کو بامقصد بھی بنا یا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ مزاح لکھنا بڑا فن ہے۔ اس فن کے اپنے درجے ہیں۔ جو جتنا بڑا فن کار ہوگا ،اُس کے مزاح لکھنے کا ہُنر بھی اتنا ہی پختہ ہوگا۔ مزاح اگر اعلیٰ پایہ کا ہو تو اس کی تاثیر بھی بہت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی مجرب دوا ہے جو انسانی ذہن وقلب کو راحت بخشتی ہے۔ ہنسی سٹریس تھیرپی کا کام کرتی ہے۔ مزاح کا کام یوں تو دل بہلانا اور دماغ کو شگفتگی بہم کرنا ہے، اور اگر کسی مزاحیہ تخلیق سے یہ ہوتا ہے تو مزاح نگار کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے اور ایسا مزاح نگار اپنے فن میں کامل ہے لیکن اس صنف کی آڑ میں اصلاحی کام بھی ہو اور اسے فلاحی ہتھیار بھی بنایا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے۔ اُخروی اعتقاد کا آدمی اس فن کو دنیوی فائدوں کے علاوہ اخروی انعاموں کی امید بھی بناسکتا ہے۔ حقیقی اور اعلیٰ ادب کی یہ خاصیت ہے کہ گہرائی کی باتیں آسان لفظوں میں بیان کی جاتی ہیں ،تاہم اظہار میں اخلاقی قدروں کو ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے مگر ان تمام لوازمات کے باوجود ایک اور بات لازم ہے کہ یہ اخلاقی معیار بے لوچ نہ ہو اور بیان میں ہمدردی اور محبت کے جذبے کا احساس ہو۔