جموں //گوجری کو سکولوں میں بطور ایک لازمی سبجیکٹ لاگو کیا جائے جیسے کہ کشمیر، ڈوگری اور بوٹی ہے ۔جموں و کشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے منعقد کئے گئے6روزہ ریاستی کانفرنس میں یہ مطالبہ کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ گوجری شمال، مغربی ہند کی ایک قبائلی زبان ہے۔مقررین نے گوجری کے لئے درسی کتابیں تیار کرنے کی ضرورت پربھی زور دیا ۔کانفرنس کی صدارت گوجری دانشور اور جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ ،کلچر اینڈ لنگویجز میں’’ گوجری ‘‘کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر جاوید راہی نے کی جبکہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمکس ڈاکٹر یاصر حمید سروال اور اکیڈمک افسرڈاکٹر انو رادھا شرما بھی اس موقعہ پر موجود تھے۔اپنے صدارتی خطبہ میں ڈاکٹر جاوید راہی نے کہا کہ ورکشاپ کے گُذشتہ 6 دنوں کے دوران چھٹی کلاس سے آٹھویں جماعت تک کے لئے گوجری زبان کی تین درسی کتابوں کو جاری کیا گیا ہے ،تاکہ بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے انہیںسرکاری اور پرائیویٹ سکولوںمیں لاگو کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم نے سیلبس تیار کرنے کے لئے دو طریقہ اپنائیں ہیں۔ پہلا درسی کتابوں کو ،جن میں ہم نے بنی نوع انسان کے درپیش مسائل کا اجا گر کیا ہے اور دوسرا ہم نے گوجروں کو فراموش کرنے والا شعبہ اُٹھایا ہے’’ گوجری تواریخ‘‘ ۔جس کا حوالہ ان تین کتابوں میں دیا گیا ہے۔ورکشاپ کا مقصد گوجری زبان کا فروغ بذریعہ درسی کتابیں کرنا ہے۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمکس ڈاکٹر یاصر حمید سروال نے کہا کہ اس سے قبل ہم نے پہلی سے پانچویں جماعت تک کی کتابوں کا جائزہ لیا اور انہیں سکولوںمیں لاگو کیا۔انہوں نے کہا کہ گوجری کی درسی کتابوں کو فروغ دینا ایک مطالبہ تھا کیونکہ یہ ہماری ریاست کی ایک اہم زبان ہے۔مقررین نے اس موقعہ پر بورڈ کی توجہ گوجری زبان کو 12ویں جماعت تک لاگو کرنا کی جانب مبذول کی ۔مقررین نے کہا کہ گوجر دیگر علاقائی زبانوں کو نہ ہی لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتے ہیں، اسلئے یہ لازمی ہے کہ ان کو اپنی مادری زبان گوجری میںتعلیم دی جائے۔انہوں نے بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے گوجری کو فروغ دینے اور اسے سکول سیلبس میں شامل کرنے پرسراہناکی۔ورکشاپ میں شرکت کرنے والوں میںنامور گوجری مصنف جان محمد حکیم، امین انجم، عبدالمجید چودھری،چودھری حمد اسلم ،راجندر سنگھ اور رنجیت سنگھ بھی شامل تھے۔