جموںوکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے لئے گئے میٹرک امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے جس میں بورڈ حکام کے مطابق مجموعی طور پر 79.94 فیصد امیدواروںنے کامیابی حاصل کی ہے۔بورڈاعداد و شمار کے مطابق کل 145671طلباء امتحان میں شامل ہوئے جن میں75427لڑکے اور 70244لڑکیاں شامل ہیںجن میں سے 116453طلباء نے 79.89یصد شرح کے ساتھ امتحان کوالیفائی کیا ہے۔ان میں سے لڑکیوں کی شرح 81.24فیصدجبکہ لڑکوں کی شرح 78.74فیصد رہی۔ مجموعی طور پردسویں جماعت کے یہ نتایج انتہائی حوصلہ افزاتو لگ رہے ہیں کیونکہ کامیابی کی شرح کافی اچھی رہی ہے تاہم جب رزلٹ گیزٹ کا پوسٹ مارٹم کیاجاتا ہے تو ایک الگ ہی تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔75فیصد کامیابی کی شرح کیلئے محکمہ تعلیم کو دراصل نجی سکولوںکا مرہون منت رہنا چاہئے جہاں کامیابی کی شرح تقریباً صد فیصد رہی ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے نتائج بدستور انتہائی مایوس کن ہوتے ہیں جبکہ ان سکولوں میںبہترین سہولیات کے علاوہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ موجود ہیں جن کی تنخواہوں پر محکمہ تعلیم کو ماہانہ کروڑوں روپے ادا کر نا پڑ رہے ہیں۔اس سوال کا محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے اور وہ بانت بانت کی بولیاں بول کر عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ہر برس جموںوکشمیر میں سینکڑوں نئے سکول کھولے جاتے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں سکولوں کا درجہ بڑھایا جارہا ہے اور کوشش یہ ہے کہ تعلیم کے نور سے ہر ایک کومنور کیا جاسکے لیکن ان سکولوں کو کھولنے کا کیا مقصد جب آپ کی کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہی ہو جائے۔ سکولوں کی تعداد بڑھانے کا کیا مقصد ،جب پہلے سے ہی موجود سکولوں میں معیار تعلیم بہتر بنانے کی جانب کوئی پہل نہ کی جائے ۔آپ بچوں کو سکولوں میں داخلہ دیں گے لیکن اس کا کیا فائدہ جب ان کی بنیاد ہی صحیح نہ ہو اور میٹرک تک پہنچتے پہنچتے ہی وہ اپنا دم خم کھو بیٹھیں ۔سروشکھشا ابھیان ،ایجوکیشن گارنٹی سکیم اور براہ راست بھرتی کے ذریعے آپ ہزاروں نوجوانوں کیلئے روزگار کی سبیل پیدا کریں گے ،لیکن کیا یہ صرف روزگار تک ہی محدود ہے ،بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نجی سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ مسلسل سرکاری سکولوں کے بچوں پر سبقت حاصل نہیں کر رہے ہوتے حالانکہ سرکاری سکولوں میں نجی سکولوں کی نسبت سہولیات کہیں زیادہ بہتر اور اساتذہ کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور ذہین ہیں ،توپھر کیا وجہ ہے کہ سرکاری سکول پچھڑتے ہی چلے جارہے ہیں،یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب محکمہ تعلیم کے ارباب حل و عقدکو دینا ہی پڑے گا۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مرکزی اور یوٹی سرکار کی جانب سے چلا ئی جارہی متعدد سکیموں کے باعث سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی ،وہیںدوسری جانب تعلیم کا معیار گٹھتا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ سرکاری سکول اپنے آپ کو کہیں شمار و قطار میں ہی نہیں پاتے ہیں ۔محکمہ تعلیم اپنے دفاع میں لاکھ تاویلات پیش کرے لیکن اس حقیقت کی شاید ہی پردہ پوشی کی جاسکتی ہے کہ اس محکمہ میں جواب دہی کا شدید فقدان ہے ۔ارباب حل و عقد کو اس محکمہ کی حساسیت کا احساس ہونا چاہئے تھا ۔استاد کو قوم کا معمار کہا جاتا ہے اور یہ یہی استاد ہے جو ایک خوشحال اور مہذب معاشرے کی بنیاد ڈالتا ہے لیکن بورڈ امتحانا ت کے نتائج سے لگتا ہے کہ ہمارے اساتذہ اپنے فرائض سے ابھی بھی مکمل انصاف نہیں کررہے ہیں اور وہ اس عظیم پیشے کو مشن نہیں بلکہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ تصور کرتے ہیں ۔محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کویہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ انکریمنٹ روکنے یا معطلی سے سر کاری سکولوں میں تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی نتائج میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔حکام کو خواب غفلت سے بیدار ہو کر اس عظیم پیشے کاتقدس بحال کرنے کیلئے راست اقدامات کرنے ہونگے ،تبھی ممکن ہے کہ سرکاری سکولوں کی شان رفتہ بحال اور تعلیم کا معیار بلند ہو ،ورنہ جس حالت میں ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ہے ،اس میں کسی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے ۔