وہ کچن میں کھڑی پیاز کاٹ رہی تھیں ….میری آہٹ سن کر مڑی تو میں نے دیکھا….؟اس کی آنکھیں بالکل سرخ تھیں اور مسلسل آنسوں بہہ رہے تھے….میں نے ہمدردی سے پوچھا…؟رو رہی ہو امّی ….؟بھیگی آنکھوں سے ہنستے ہوئے بولی….! نہیں تو….!پیاز کاٹ رہی تھی….بہت کڑوا ہے…!
میں نے کہا ….!امّی بابا کی یاد آ رہی ہیں نا….؟نہیں بیٹا پیاز کاٹ رہی ہوں …اس نے پہلے آنکھیں صاف کیں …دو پٹہ کو ٹھیک سے اوڑھا اور باہر کی طرف چل دی….
میں نے اس کے جانے کے بعد ٹیبل پہ پڑے پیاز کی طرف دیکھا جو اَدھا کٹا ہوا تھا….باقی بچے آدھے پیاز کو میں کاٹنے لگا…اور ایک حیرت کا جھٹکا مجھے تب لگا جب پورا پیاز کٹ گیا لیکن میری آنکھوں میں جلن ہوئی اور نہ ان میں پانی بھر آیا ….!پیاز تو بالکل بھی کڑوا نہیں ہے ….!
میں نے اس کے قدموں کی آہٹ سن کر مڑ کے دیکھا ….!گو امّی نے مجھے آدھا پیاز کاٹتے دیکھا ….!انہوں نے اپنی سرخ آنکھیں میری آنکھوں میں ڈال کر بھیگے لہجے میں دھیرے سے سرگوشی والے انداز میں کہا…..؟پیاز تو کڑوا نہیں ہوتا ہے بیٹا ….!عورت کی زندگی کڑوی ہوتی ہے….!امّی نے مجھ سے لپٹ کے اپنے بوجھ سے میرے دامن کو بھگو دیا ….
امّی …..یہ بوجھ اتنا بھاری ہوتا ہے کیا…؟امّی نے ہلکا ہوتے ہوئے آنسوں پونچھ پانچھ کے مدھم سی آواز میں کہا ….!ہاں بیٹا ….!بہت بھاری ہوتا ہے یہ بوجھ ….جو ایک عورت سے اٹھایا نہیں جاتا ….مدّتوں کے فراق کے بوجھ نے اس کے صبر کے پیمانے کو لبریز کیا تھا ….
بوجھ …بوجھ….بوجھ….!
اور یہ گنگناتے ہوئے میری آغوش میں …..امّی کی آنکھ لگ گئی…..!
شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
ریسرچ اسکالر ،سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر