وہ اخبار جو قتل و غارت گیری کی خبروں اور اشتہا انگیز فلمی اشتہاروںسے سجے ہو ئے ہوں گرم کیک کی طرح بکتے ہیں ۔اخبار میں اگر کتو ںکی سی حرکات و سکنات یعنی لڑائی جھگڑے کی خبریں اور گوشت و پوست کی نمائش سے مزین تصویرِ بتاں نہ ہوں ،تو انسانوں کو چھوڑئے ،کتے تک اس اخبار کو سونگھنا پسند نہیں کرتے (اگر اس خبار کو گوشت باندھنے کے لئے استعمال کر کے گوشت و لہو کی خوشبو سے مہکایا نہ گیا ہو )یہ اور بات ہے کہ ان دنوں تازہ اخباروں سے بھی اسی قسم کی مہک آ نے لگی ہے ۔
ہمارا مستقل قصائی رمضانی میاں گوشت بکری کا کاٹتا ہے اور خون ہمارا چوستا ہے ۔قیمہ مانگئے تو کہتا ہے حضور !آ ج بھیجہ لے جائیے، بڑا عقل مند بکرا تھا ۔یوں بھی اس کی بہت ضرورت ہے ، کھانے والے بہت مل جا ئیں گے ۔جس دن بھیجے کی فرمائش کریں تو کہتا ہے : صبح سے اتنے اور ایسے ایسے لوگ آ ئے کہ کچھ بھی نہیں بچا ۔ لیجئے آ پ کے لئے تو یہ مال حاضر ہے ۔ کھٹا کھٹ دوچار ہاتھ چلا کر ردی اخبار پرگوشت کے ٹکڑے پھیلا کر کہتا ہے ع
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کر
بات یہ ہے کہ پڑیوں کے کاغذات کا میں مستقل قاری ہوں، اس دن سے جب میری بیوی نے شکر کی ایک پڑیا کھولنے کے بعد یہ مژدہ سنایا تھا کہ لیجئے اب تو آپ کانام بھی پڑیوں میں آ نے لگا ۔در اصل مقامی اخبار میں میرا ایک مضمون چھپا تھا اور اسی کاغذمیں اس دن شکر بند ھی ہو ئی آئی تھی ۔ بہر حال اس دن ایسے ہی ایک ردّی اخبار کو غور سے دیکھا تواس میں ایک سفید فام کتیا کی تصویر نظر آ ئی ۔ تصویر کے گلے میں پٹے کی طرح یہ خبر بھی لگی تھی کہ کتوں کی نمائش کے مقابلے میں مذکورہ کتیا اول انعام کی حق دار قرار پائی ہے ۔
یہی تصویر ہمارے دوست مسٹر اے ٹو زیڈ نے کسی اخبار میں دیکھی تو انہیں بھی دیگر لوگوں کی طرح اس جانورکی خوبصورتی اور خوش نصیبی پر رشک آ یا۔موصوف کا حال یہ ہے کہ اب تک درجنوں ادبی اور غیر ادبی معمے بھر کر بھجوا چکے ہیں اور کر نا خدا کا ایسا ہوا کہ قرعہ اندازی کے بعد حصہ میں آنے والی کوئی حقیر رقم بھی کبھی نہ جیت پائے ۔اس کتیا کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہو ئے بولے ۔اللہ قسم کیا پیاری کتیا ہے ۔جی چاہتا ہے کاش ہم بھی انسان نہ ہو تے کتے ہوتے ۔
انعام پانااور اخبار میں تصویر کا چھپ جانا کیا بڑی بات ہے ۔آج کل لوگ مقبولیت اور عظمت کو اخباروں اور رسائل میں نمایاں ہونے سے ناپنے لگے ہیں، اسی لئے اب شہرت کے دیوانے خبروں میں بنے رہنے کے لئے جان توڑ کو شش کر تے ہیں ۔ایک مقامی لیڈر کے متعلق ایک صاحب فر مانے لگے صبح اٹھتے ہی وہ سب سے پہلے اخبار میں اپنی تصویر اور خبر تلاش کر تا ہے ۔ پورا اخبار تہ و بالا کرڈالتا ہے ۔ہر جگہ سے مایوس ہوجاتا ہے تو سوچتا ہے کہیں نہیں تو کم ازکم وفیات کے کالم ہی میں تصویرچھپ جاتی تو دیکھ کر سکون مل جاتا ۔
مقبولیت کے پیمانے سے ناپیں تو کتا بہر حال انسانوں سے دو قدم آ گے ہے ۔کہیں والدین کی نظر میں کتوں کے پلے اپنی اولادوں سے عزیز تر ہیں تو اکثر اولادوں کو اپنے بوڑھے ماں باپ سے زیادہ اپنے السیشین اور بلڈاگ پیارے ہیں کہ وہ بھاری قیمت ادا کر کے خریدے گئے۔ماں باپ تو خیر مالِ مفت ہے ۔ انسان مقبولیت کی دوڑ میں شامل ہوں تو کتا آ گے نکل گیا ۔ثبوت اس کا اخبار میں چھپی تصویر ،اول انعام کا حقدار قرار پانا ۔ کتے کی اسی مقبولیت سے متاثر ہو کر مسٹر اے ٹو زید کی طرح کئی لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ضرور سر سرایا ہو گا کہ کاش ہم بھی کتے ہوتے ! کوئی لیڈر ہمارے گلے میں وفاداری کا پٹہ ڈال دیتا ، کوئی حسینہ چمچماتی کا رمیں براجمان ہو کرمرکیوری ٹیوب لائٹ جیسی بانہیں اس کے گلے میں حائل کر کے دیگر کتوں کو بھونکنے کا موقع فراہم کر دیتی یا کسی فیکٹری کا مالک مزدور وں کا گلا کاٹ کرحاصل کئے گئے بسکٹ کے چند ٹکڑے اس کے آگے ڈال دیتا یا اس کی ایک عدد بڑی سی دم ہو تی جسے کسی بڑے آ دمی کے پیچھے ہلاتا پھر تا ۔سوال یہ ہے کہ آ خر کتوں کو کون سے سر خاب کے پر لگے ہیں جس کے سبب اعلیٰ سوسائٹی کے افراد اپنے بنگلے کے میں گیٹ پر یہ لکھوانا باعث ِ فخر سمجھتے ہیں : ’’ یہاں کتا رہتا ہے‘‘۔
کتوں کی صحبت سیر سپاٹے کی نہ سہی ،امیرانہ ٹھاٹھ کی معراج تو بن ہی چکی ہے ۔ انسانوں میں وقت کے ساتھ جو بہت سی کمزوریاں پیدا ہوئیں ،ان میںخوئے وفا کا نکل جا نا بھی ہے اسی کے طفیل غالب ؔ نے برہمن کو کعبے میں دفن کر نے کی تجویز پیش کی ہے اور جس شعر میں یہ مشورہ دیا گیا ہے، اُسے سن کر ایک صاحب نے غالبؔ کو بت خانے ہو تے ہوئے جہنم رسید کر نے کا فتویٰ دیا۔ ظاہر ہے نہ غالب ؔان کے سمجھ میں آ یا نہ اس کا یہ شعر ؎
وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
اب انسانوں کا حال یہ ہے کہ وفاشعاری انسانوں میں ناپید ہو گئی تو اسے کتے جیسی حقیر مخلوق میں ڈھونڈنا شروع کر دیا، انسان کو بے وفائی کی اس سے بڑی سزا اور کیا ملتی ہم نے اکثر لکھ پتی اور کروڑ پتی کو اس رسی سے بندھا ہوا پایا جس کے ایک سرے پر تو وہ خود تھے اور دوسرے پر ایک عدد کتا ۔
پھر ہم نے لاکھ سر مارا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟تھک ہار کرعقل نے جو سبب سمجھایا وہ یہ کہ ان مال داروں کے اپنے قریب و دور کے رشتہ داروں میں کوئی با وفا نہ ملا سبھی دولت کے چاہنے والے تھے ،وفاداری بہر حال انسان کی نفسیاتی اور مادی ضرورت ہے ۔امیر لوگ کتے پال کر یہ ضرورت پوری کرتے ہیں کہ اس بے زبان کو پیسے سے پیا ر نہیں ۔
کتوںکا بُو سے یعنی سونگھنے کی قوت سے گہرا تعلق ہے، مجرموں اور قاتلوں کا سراغ بھی اسی بُو کے ذریعے کتوں کی مدد سے لگایا جاتا ہے ۔یہ بڑی بات ہے کہ انسانوں کوکتوں میں بوئے وفا دستیاب ہو ئی ،یعنی انہوں نے سونگھ لی، گویا انسان میں اتنا کتا پن تو اب بھی موجود ہے ۔ بات کتے پن کی چل پڑی ہے تو یہ بھی عرض کر دیں کہ ابن ِآدم انسانیت نوازی میں بھلے ہی پیچھے کیوں نہ ہو ،کتا پن کے معاملے میں دیگر جانوروںمیں وہ کتوں سے دو قدم آگے ہی ہے ۔ دورِ حاضر میں انسانیت کی ترقی پر نظر ڈالئے تو اس میں انسانی ترقی کا کم اور کتا پن کا اس کورزیادہ نظر آ تا ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو اخبار میں جابجاکتوں کی تصاویر کیوں نظر آ تیں ؟؟؟اسی تصویر کو پھرکسی اخبار میں دیکھ کر مسٹراے ٹو زیڈ نے رال ٹپکائی :کاش ہم بھی کتے ہوتے! میں نے ان کی بات سن کرکہا آ پ کو یہ غلط فہمی کیوں کر ہو ئی میاں، کیا آ پ کتے نہیں ہیں ؟یقین مانئے آ پ شہرت طلبی کے کتے ہیں تبھی تواخبار میں چھپی تصویر پر رال ٹپک رہی ہے ۔یہ سنتے ہی میری بات کی تصدیق کر کے مسٹر اے ٹو زیڈ نے وہی کیا جوایک کتے کو دیکھ کر دوسرا کتاکیا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ :۳۰۔ گلستان کالونی ، ناگپور ۴۴۰۰۱۳ رابطہ : 9579591149