گزشتہ ماہ کے اخبارات میں متواترسعودی ولی عہد بن سلمان کے حوالے سے ایرانی اور روسی میڈیا نے خبریں دی ہیں کہ ’’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کچھ عرصے سے منظر سے غائب ہیں جب کہ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ گزشتہ ماہ 21 اپریل کو ریاض کے شاہی محل میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے میں ولی عہد محمد بن سلمان آل سعود شدید زخمی ہوگئے ہیں جس کے بعد سے وہ کسی عوامی مقام پر نظر نہیں آرہے۔ یہاں تک کہ اپریل کے آخری ہفتے میں جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو تین روزہ سرکاری دورے پر ریاض پہنچے تو بھی اس موقع پر کراؤن پرنس محمد بن سلمان کہیں نظر نہیں آئے‘‘۔ سعودیہ سرکاری سطح پر کہہ رہاہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان بخیر و عافیت ہیں۔ معمول کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، سعودی کونسل برائے معاشی تعاون کے اجلاس کی صدارت کی، ولی عہد کی تازہ تصویریں جاری، موت کی خبر جھوٹی ہے۔ یاد رہے کہ اس سلسلے میں بن سلمان کی تصاویر بھی میڈیا میں شائع کی جاچکی ہیں ۔
شاہ عبدالعزیز کی رحلت کے بعد شاہ شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد اور شاہ عبداللہ نے بلاشبہ سعودی مملکت کے داخلی نظام کو قرآن و سنت کی روشنی میں قائم رکھنے اور خارجہ پالیسی کو عالم عرب سمیت عالم اسلام کے بہترین مفاد میں ترتیب دینے پر ہمیشہ یکسو اور متوجہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی بادشاہ کو غیر علانیہ طور پر عالم اسلام کا ’’قائد‘‘ بھی تصور کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم سعودی عرب کے موجودہ فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو گردوپیش میں جن خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے ،اُن سے کہیں بڑھ کر آل سعود کی خاندانی بادشاہت داخلی بحران میں مبتلا ہے۔ بالخصوص صاحبزادے کی محبت میں شاہ سلمان نے بادشاہت کی ترکیب کو جس طرح سے تبدیل کیا ہے اس سے شاہی خاندان کے اندر تشویش اور بے چینی محسوس کی جانے لگی ہے۔ شاہی خاندان جو تقریباً 5 ہزار شہزادوں پر مشتمل ہے اور جس میں سابقہ بادشاہوں کے صاحبزادوں میں سے بعض انتہائی بااثر اور مملکت کے امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انہیں نظر انداز کیا جانا بھی برسراقتدار شاہی خاندان کے لیے کوئی نیک شگون نہیں تھا۔ تاہم یہ صورت حال اس وقت زیادہ گمبھیر ہوگئی جب شاہ سلمان نے اپنے بھتیجے شہزادہ محمد بن نائف بن عبدالعزیز کو برطرف کرکے 21 جون 2017ء کو اپنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کو مملکت کا ولی عہد مقرر کردیا۔ ولی عہد نے سب سے پہلے کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کے نام پر شاہ عبداللہ کے صاحبزادوں سمیت بعض دیگر شہزادوں کو جو نیشنل گارڈز کے کمانڈر سمیت اہم عہدوں پر فائز تھے، انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ بعد کی خبروں کے مطابق بعض تاجر اور شہزادے بھاری رقوم لے کر چھوڑ دیے گئے مگر شہزادہ ولید بن طلال سمیت بعض تاحال لاپتہ ہیں۔ شاہی خاندان کے اندر کیا جانے والا کریک ڈاؤن انصاف پر مبنی کوئی عادلانہ فیصلہ تھا یا اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے کوئی انتقامی کارروائی ؟ اس سوال پر ابھی بحث جاری تھی کہ ولی عہد ابن سلمان نے مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطین کے مسئلے پر ایسے دل آزاربیانات دیے اور اس طرح کی پالیسی اختیار کی جس کے نتیجے میں ’’اسرائیل‘‘ زیادہ محفوظ اور مضبوط ہوتا ہوا نظر آنے لگا۔
14 مئی کو امریکی سفارت خانے کا بیت المقدس منتقل ہونے کو گوکہ سعودی وزرا کونسل نے مسترد کردیا تاہم سنجیدہ حلقوں میں یہ رائے عام پائی جاتی ہے کہ سعودی ولی عہد کے حالیہ دورہ امریکا کے بعد صدر ٹرمپ کو یہ حوصلہ ملا کہ اس نے او آئی سی، عرب لیگ اور جنرل اسمبلی کے فیصلوں کے برعکس امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کردیا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسرائیل کے قیام کو 70 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے 9 مئی 2018ء کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کے سفیر ڈیوڈ گوبرین نے سعودی ولی عہد بن سلمان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بن سلمان کو اسرائیل کا حلیف قرار دیا ،جب کہ دوسرے روز 10 مئی 2018ء کو تحریک اسلامی فلسطین کے نائب سربراہ شیخ کمال خطیب نے ’’حق واپس مہم‘‘ کے دوران مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’ریاض حکومت کی قیادت میں امریکی اور اسرائیلی منصوبوں میں معاونت کے لیے خطرناک عرب سازش تیار کی جارہی ہے جس میں قضیہ فلسطین کا سودا کیا جانے والا ہے اور مزید یہ کہ سعودی عرب بیت المقدس شہر اور مسجد اقصیٰ پر دعوے سے دستبردار ہوجائے گا۔ حالیہ دورہ امریکا کے دوران ولی عہد بن سلمان نے صدر ٹرمپ، سابق صدر بش سمیت جن اہم یہودی شخصیات سے ملاقات کیں اور جس طرح کا اظہار خیال کیا ،اس پر بھی عرب عوام میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ کشیدگی اور تناؤ سے پاک رکھنے کی کوشش کی گئی تاہم موجودہ بادشاہ کے دور میں ایران، یمن، لبنان، شام اور قطر کے ساتھ تنازعات جب کہ حماس اور اخوان المسلمون جیسی مقبول عوام جماعتوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات نے سعودی عرب کی دوستانہ اور برادرانہ خارجہ پالیسی کومتنازعہ بنادیا جس کی ذمے دار وزیر خارجہ عادل الجیر اور کراؤن پرنس بن سلمان کو قرار دیا جاتا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ چند ماہ میں جس تیزی کے ساتھ سعودی عرب کے اسلامی تعارف کو تبدیل کرکے اسےایک سیکولر ملک بنانے سمیت سعودی کے پاکیزہ معاشرے کو آزاد خیال معاشرہ بنانے کی کوششیں کی ہیں اور فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دینے والے جن قوانین کی منظوری دی ہے، اس پر ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کے اندر اور باہر تمام عالم اسلام میں سخت ناپسندیدہ اور متنازعہ بن چکے ہیں کیوں کہ ملت اسلامیہ سعودی عرب پر ’’آل سعود‘‘ کی بادشاہت کو تو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں مگر اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دے گی کہ جہاں بیت اللہ موجود اور خاتم الانبیاؐ آرام فرما رہے ہوں، اس کے گردونواح میں سینما گھر کھولے جائیں،مخلوط محفلیں سجائی جائیں، عمرہ اور حج جیسی افضل عبادات پر آنے والے حجاج کرام کے پہلو میں عورتیں ٹیکسی ڈرائیور ہوں۔ بن سلمان کی تمام غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ جب سعودی عرب کے اسلامی تعارف کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی شاید ولی عہد کے شخصی زوال کا سب سے بڑا سبب یہی آخری گناہ ثابت ہوا کیوں کہ اسلام دشمن قوتوں کو اس ڈکٹیٹر کی شکل میں ایک ایسا مہرہ مل گیا جو سعودی عرب پر فوجی جارحیت کیے بغیر ان کا کام کررہا ہے۔ بہرحال مذکورہ بن سلمان سے متعلق تازہ خبروں اور قیاس آرائیوں پر کوئی حتمی رائے قائم کر نا مشکل ہے مگر ان کے زندہ ہونے کے بارے میں سعودی سفارت خانے اور ایجنسیاں جو کچھ کہہ رہی ہیں وہ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ مزید سوالات کو جنم دے رہی ہیں۔ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ولی عہد کے بارے میں کسی ویڈیو کلپ کے نہ دکھائے جانے کا صاف مطلب ہے کہ بن سلمان کے حوالے سے دال میں کچھ کالا ہے۔ ایرانی اور روسی میڈیا کہتا ہے کہ وہ غالباً 21 اپریل کو شاہی محل پر ہونے والے حملے کے دوران شاہی گارڈز کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں اور انہیں رات کے اندھیرے میں مبینہ طور دفنایا بھی جاچکا ہے اور اس سانحے کو صیغۂ راز میں اس لیے رکھا جارہا ہے کہ ولی عہد کے مبینہ قتل کے بعد 2 سوال ہیں جن پر سعودی حکمران اور شاہی خاندان یقیناًغور کررہا ہوگا۔شاہ فیصل کے قاتل بھتیجے کا سرقلم کیا گیا تھا۔ کیا شاہی خاندان کے کسی شہزادے کو ولی عہد کے مبینہ قتل میں ملوث قرار دیتے ہوئے قتل کردینا آسان ہوگا یا مزید ردعمل اور مشکلات کا سبب؟ اور مزید یہ کہ مملکت کی روایت کے مطابق ولی عہد کی وفات یا برطرفی کی صورت میں نئے ولی عہد کا اعلان بھی ساتھ ہی ہونا ہے۔ لہٰذا تا حال ان خبروں کی تائید کی جاسکتی ہے نہ تردید ۔