یو این آئی
ڈھاکہ//بنگلہ دیش کی یونیورسٹی کے ایک کیمپس میں جھڑپوں کے دوران 150 سے زائد طالب علم زخمی ہوگئے ، یہ تازہ واقعہ گزشتہ سال ‘انقلاب’ کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے گروہوں کے درمیان شدید اختلافات کی علامت ہے ۔ یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں، جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے یوتھ ونگ نے جنوب مغربی شہر میں کھلنا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں طلبہ کی رکنیت سازی کی کوشش کی۔اس کے نتیجے میں ‘اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنٹ’ کے ارکان کے ساتھ محاذ آرائی شروع ہو گئی، جھڑپوں میں وہ احتجاجی گروپ بھی شامل تھا، جس نے گزشتہ سال اگست میں سابق آمرانہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کو معزول کرنے والی بغاوت کی قیادت کی تھی۔کھلنا کے پولیس افسر کبیر حسین نے بتایا کہ جھڑپ کے بعد کم از کم 50 افراد کو علاج کے لیے لے جایا گیا، صورت حال اب قابو میں ہے اور پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے ۔کمیونیکیشن کے طالب علم زاہد الرحمٰن نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد اینٹوں اور تیز دھار ہتھیاروں سے زخمی ہوئے ، جب کہ 100 کے قریب افراد کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔فیس بک پر تشدد کی فوٹیج بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تھیں، ان فوٹیج میں متحارب گروپوں کو چاقو اور چھریاں پکڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ، جب کہ زخمی طالب علموں کو علاج کے لیے ہسپتال لے جایا جا رہا ہے ۔دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر تشدد شروع کرنے کا الزام عائد کیا۔بی این پی اسٹوڈنٹ ونگ کے سربراہ ناصر الدین ناصر نے اسلامی سیاسی جماعت کے ارکان پر الزام عائد کیا کہ وہ تصادم پر مجبور کرنے کے لئے حالات کو بھڑکا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جماعت کے کارکنوں نے یہ غیر ضروری تصادم پیدا کیا، مقامی طالب علم عبید اللہ نے بتایا کہ بی این پی نے کیمپس کی جانب سے قائم سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے پاک رہنے کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے ، کیمپس میں جماعت کی کوئی موجودگی نہیں۔اس واقعے نے ملک کے دیگر حصوں میں طلبا میں غم و غصے کو بھڑکا دیا اور ڈھاکا یونیورسٹی میں بی این پی کے یوتھ ونگ کی مذمت میں منگل کی رات احتجاجی ریلی نکالی گئی۔امتیازی سلوک کے خلاف طالب علموں نے گزشتہ سال مظاہروں کا آغاز کیا تھا، جس میں بنگلہ دیش کی سابق حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، اور سابق رہنما حسینہ واجد کو 15 سال کی آہنی گرفت کے بعد جلاوطنی میں دھکیل دیا گیا تھا۔حسینہ واجد کے دور حکومت کے آخری دنوں میں بی این پی کے کارکنوں نے سکیورٹی فورسز کے خونریز کریک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے طلبہ مظاہرین کا ساتھ دیا، جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے ۔توقع کی جا رہی ہے کہ بی این پی اگلے سال کے وسط میں ہونے والے نئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی، جو جنوبی ایشیائی ملک کی موجودہ نگران انتظامیہ کی نگرانی میں ہوں گے ۔دریں اثنا طلبہ رہنماؤں کو حسینہ واجد کے ایک پائیدار سیاسی قوت میں تبدیل ہونے میں اپنی کامیابی سے اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔