عظمیٰ نیوز سروس
ڈھاکہ//عالمی امداد میں کٹوتیوں کے باعث اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ‘یونیسیف’ نے بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپوں سے ایک ہزار سے زائد اساتذہ کو برطرف کر دیا ہے ۔زیادہ تر مسلمان اور ظلم و ستم کے شکار تقریباً دس لاکھ روہنگیا مہاجرین، بنگلہ دیش کے خستہ حال امدادی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ روہینگیا مہاجرین کی اکثریت 2017 میں پڑوسی ملک میانمار میں فوجی کریک ڈاؤن کے بعد بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپ میں پہنچی تھی۔اساتذہ کی برطرفیاں امریکی عطیات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کے بعد سامنے آئی ہیں۔یونیسیف نے منگل کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ “عالمی امدادی عطیات کے بحران کی وجہ سے ، یونیسیف کو مشکل فیصلے کرنے پڑے ہیں جوروہنگیا پناہ گزین بچوں کے لیے ابتدائی تعلیمی خدمات کو متاثر کریں گے ۔”یونیسیف نے کہا ہے کہ کنڈرگارٹن اور پرائمری اسکولوں میں کام کرنے والے 1,179 افراد کے معاہدے ختم کر دیے گئے ہیں۔بنگلہ دیش حکومت کے تجربہ کار امدادی اہلکار محمد شمس الضحی کے مطابق، کٹوتیوں سے پہلے ، کیمپوں میں تقریباً 4,000 اساتذہ موجود تھے ۔
حالیہ دنوں میں عیدالضحیٰ کے باعث اسکول بند ہیں، لیکن اگر جون کے آخر میں نئے تعلیمی سال کے آغاز تک نئے عطیات حاصل نہ کئے جا سکے تو مزید اساتذہ ملازمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔یونیسیف نے مزید کہا ہے کہ “برطرف کئے اساتذہ کی واپسی نئے عطیات کے حصول پر منحصر ہے ۔ بہتر مستقبل ہر بچے کا حق ہے اور ہمیں امید ہیں کہ بڑھتی ہوئی حمایت سے روہینگیا بچے اپنا حق حاصل کر سکیں گے “۔واضح رہے کہ، جنوری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ صدارت سنبھالنے اور زیادہ تر غیر ملکی امدادی عطیات منجمد کرنے کے بعد سے ، دنیا بھر میں انسانی امداد کی تنظیمیں مشکلات کا شکار ہیں۔امریکہ، اس وقت اپنے بجٹ کے اچانک پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف، کئی اداروں کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ رہا ہے ۔یونیسیف نے مزید کہا ہے کہ “ہم، پہلے ہی تعلیم، صحت، غذائیت اور تحفظ کے معاملے میں مصائب کے شکار، روہنگیا پناہ گزین بچوں کی فوری ضروریات سے بخوبی واقف ہیں”۔”ہمارا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان بچوں کے پاس بنیادی مہارتیں اور بنیادی قابلیت ہو تاکہ جب ان کی اپنے ملک محفوظ واپسی کا وقت آئے تو اپنے معاشرے کے موئثر شہری بنیں”۔