یو این آئی
ڈھاکہ// بنگلہ دیش کے نئی حکومت نے معزول شیخ حسینہ واجد کے دور اقتدار کے دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سیکڑوں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔تحقیقات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی بدنام زمانہ (ریپڈ ایکشن بٹالین) نیم فوجی دستہ بھی شامل ہے جس پر امریکہ نے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں کردار ادا کرنے پر پابندی لگائی تھی۔گزشتہ سال ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں شیخ حسینہ واجد نے اقتدار میں آنے کے بعد 600 سے زائد افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا تھا، جن میں سے تقریباً 100 افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا۔حراست میں لیے جانے والے ان افراد میں زیادہ تر شیخ حسینہ واجد کی مخالف جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے لوگ شامل ہیں۔ تاہم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے یہ دعوٰی کیا تھا کہ لاپتہ قرار دیئے جانے والے کچھ افراد یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران بحیرہ روم میں ڈوب گئے تھے ۔گزشتہ روز رات دیر گئے ایک حکومتی حکم نامے میں بتایا گیا کہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج معین الاسلام چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) سمیت دیگر نیم فوجی پولیس یونٹوں کے خلاف بھی تحقیقات کرے گی۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ ‘ریب’ اور ‘بی جے بی’ دونوں فورسز کے پاس جبری گمشدگیوں، تشدد اور ناروا سلوک سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے ۔‘کمیشن کو نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں قائم عبوری حکومت کی جانب سے 45 دن میں اپنی رپورٹ جمع کرانے کا وقت دیا گیا ہے ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ کی معزولی کے دوران کئی ہفتوں تک جاری کشیدگی کے دوران 600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ۔واضح رہے شیخ حسینہ واجد کے فرار ہونے کے اگلے ہی دن حراست میں لیے گئے افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے ڈھاکہ میں ملٹری انٹیلی جنس فورس کی عمارت کے باہر جمع ہو گئے تھے تاہم ان میں سے صرف چند افراد کی ہی رہائی کی تصدیق ہوئی ہے ۔
جماعت اسلامی پر پابندی ختم
ڈھاکہ/یو این آئی/ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ملک کی مرکزی اسلامی جماعت اور اس سے منسلک گروپوں پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کے ‘دہشت گردانہ سرگرمیوں’ میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے ایک قانون کے تحت جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی۔شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا، جو بعد ازاں پرتشدد مظاہروں اور پھر بغاوت میں تبدیل ہوگیا جس کی وجہ سے حسینہ واجد 5 اگست کو استعفیٰ دے کر ہندفرار ہونے پر مجبور ہوئیں۔حسینہ واجد کے مستعفی اور ملک سے فرار ہونے کے بعد ان کی جگہ قائم کی گئی عبوری حکومت نے گزشتہ روز ایک نوٹی فکیشن جاری کیا۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق جماعت اسلامی اور اس سے وابستہ افراد کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ملا۔جماعت اسلامی کی جانب سے سابق حکومت کی جانب سے تشدد کو ہوا دینے کے الزامات لگائے گئے الزامات کی تردید کی گئی ہے ، جب کہ جماعت نے پابندی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر آئینی وغیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ماورائے عدالت قرار دیا تھا۔واضح رہے کہ 2013 میں ایک عدالتی فیصلے کے بعد جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر جماعت اسلامی کی رجسٹریشن بنگلہ دیش کے سیکولر آئین سے متصادم ہے ۔پارٹی کے وکیل ششیر منیر نے کہا کہ وہ اپنی رجسٹریشن کی بحالی کے لیے اگلے ہفتے کے اوائل میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریں گے ۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش کے سابق وزیر قانون انیس الحق نے بتایا تھا کہ بنگلہ دیشی حکومت نے یکم اگست 2024 کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 2009 کے تحت ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ بنگلہ دیش اسلامی چھاترا شبیر کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔