سرینگر//وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے بنگلورمیں دوکشمیری بھائیوں کی مارپیٹ کاشدیدنوٹس لینے کے کچھ ہی دن بعد اننت ناگ کے ایک باشندہ کی پنجاب پولیس کے چار اہلکاروں نے چندی گڑھ میں ہدی پسلی ایک کرکے رکھ دی۔مختاراحمدنامی اس شخص نے اپنی روئیدادبیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ امرتسر سے چندی گڑھ جارہا تھاجب پنجاب پولیس کے چار اہلکاروں نے اُسے روکااور اُسے پولیس پوسٹ خان پورہ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت دی،جو چندی گڑھ سے سات کلومیٹردور ہے۔مختارنے کہا کہ میں امرتسر سے رات9بجے نکلاتھااورصبح 3 بجے خان پورہ پہنچا ۔ میرے پاس کوئی اورمتبادل نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں خان پورہ پولیس پوسٹ نزدیک فلائی اورمیں رپورٹ کرتا۔تین ہیڈکانسٹیبلوں اور ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر پر مشتمل چار پولیس اہلکارجوشراب کے نشے میں دھت تھے ،نے میری مارپیٹ شروع کی۔بغیرکوئی وجہ بتائے انہوں مجھے دائیں بائیں آدھے گھنٹے تک ماراپیٹا۔میرے بچے جو گاڑی میں باہر میراانتظار کررہے تھے ،اندرآئے اور انہوں نے پولیس اہلکاروں سے اس مارپیٹ کی وجہ پوچھی۔مختار نے سوشل میڈیا پر اپنے پوسٹ جو کافی وائرل ہوگیا کہا ،کہ پولیس والوں نے گندی زبان استعمال کرکے کہا کہ تم کشمیری ہو اور سنگباز ہو،دہشت گرد دکھائی دیتے ہو۔انہوں نے مجھے اپنی بات کرنے کاموقعہ نہیں دیا۔مختار احمد نے کہا کہ میں نے انہیں بتایا کہ وہ ڈی آئی جی کشمیریاایس ایس پی کشمیر سے میرے بارے میں بات کرکے جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔انہوں نے میری ایک نہیں سنی اورمجھے مارتے رہے۔وہ یہی کہتے تھے کہ تم دہشت گرد دکھائی دیتے ہو۔انہوں نے میرے ساتھ بدتمیزی کی اور میرے بچوں کوگالیاں دیں۔مختار نے کہا کہ میں نے اُن سے پوچھا کہ وہ کیسے مجھے دہشت گرد قراردے رہے ہیں ؟میں نے انہیں اپنا شناختی کارڈ دکھایا لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔جب تھانے کے باہر لوگوں کاہجوم جمع ہوا توانہوں نے میراشناختی کارڈ دیکھنے کی حامی بھر لی ۔مختار نے بتایا کہ میں نے انہیں بتایا کہ میں کسی بھی تحقیقات کیلئے تیار ہوں۔کچھ دیر بعدانہوں نے میراکارڈ دیکھااور مجھے جانے دیا لیکن جانے سے پہلے گاڑی کے انشورنس کاغذات پھاڑ ڈالے اور گاڑی کا نمبر نوٹ کرلیا۔کچھ دور کئی کلومیٹر چلنے کے بعد میں یہ فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ میں چندی گڑھ جائوں یا نہیں۔اس وقعہ سے میں خوفزدہ ہوگیا ہوں ۔کیا کشمیری ہونا کوئی گناہ ہے۔ہم نہ گھر میں محفوظ ہیں نا ہی گھر کے باہر۔میں امرتسر علاج کیلئے آیاتھا۔اگر کشمیرمیں بھی اچھے ہسپتال اور دوائیاں ہوتی ،ہم کیوں جان جوکھم میں ڈال کر یہاں آتے۔انہوں نے کہا اسی طرح دو نوجوانوں کوبنگلور میں بھی کچھ دن قبل ماراپیٹاگیا۔مختار نے کہا کہ ریاستی حکومت اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اور اُسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ یہ پیغام کشمیری لوگوں کو کسی مدد کیلئے نہیں بھیج رہے ہیں ۔اللہ تعالی نے مجھے کافی نوازا ہے ۔جو لوگ مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتالیکن اگر مجھے یا میرے کنبے کو پنجاب میں کوئی گزند پہنچی تو اس کی ذمہ داری پنجاب پولیس پر عائد ہوگی کیونکہ انہوں نے میری گاڑی کانمبر نوٹ کیا ہے اور مجھے نقصان پہنچانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔مختار نے اپنی قسمت کاشکر ادا کیا کہ دن کے وقت اس کا پنجاب پولیس کے ساتھ سامناہوااگر رات ہوتی تو نہ جانے کیا ہوجاتا۔