اشفاق سعید
سرینگر // وادی بنگس کی خوبصورتی اور ماحولیاتی توازن برباد کرنے کیلئے سرکاری محکموں کی مل جل کر حکمت عملی کرنے کی چونکا دینے والی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اس دوران نہ صرف یہ کہ سبھی قانونی قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی بلکہ جان بوجھ کر ایک ایسے علاقے کو تباہ کیا گیا جو سرکاری ریکارڈ میں انتہائی گھنے جنگلات کے زمرے میں آتا ہے، اور جہاں کسی بھی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ 36 کلو میٹر سڑک کی تعمیر کے دوران مٹی کی کٹائی اور روڑکی بھرائی کیلئے جنگل میں ہی دو پہاڑیوں کا انتخاب کیا گیا حالانکہ اس کے لئے پہلے سلطان پورہ ٹنگمرگ سے مٹی اور بجری وغیرہ لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کا ذکر ڈی پی آر میں بھی درج ہے لیکن سرکاری محکموں کی آپسی ملی بھگت نے ایک خوبصورت علاقے کو برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
پس منظر
یہ گھناونا کھیل در اصل28نومبر 2022کو اس وقت شروع ہوا جب ڈسٹرکٹ منرل آفیسر کپوارہ کو آر اینڈ بی ہندوارہ نے ایک خط روانہ کیا ، جس میں محکمہ نے مقامی نالے سے سڑک کی بھرائی کیلئے خاک بجری /بال مکھ اور دیگر درکار میٹرئیل کیلئے اجازت مانگی۔اس خط کے جواب میں ضلع منرل آفیسر نے کہا کہ ضلع کے ندی نالوں میں اتنا میٹر ئیل موجود نہیں کہ ایک سڑک پروجیکٹ کیلئے1.3لاکھ میٹر دریائی میرئیل کو نکالا جائے، بلکہ ان ندی نالوں میں صرف اتنا میٹرئیل موجود ہے جو ضلع کی اپنی ضروریات کیلئے ہے، لہٰذا اسکی اجازت نہیں دی جاسکتی۔البتہ اسی خط میں آر اینڈ بی کو یہ مشورہ دیا گیا کہ نالے کے باہر 2ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں سے درکار میٹرئیل کو نکالا جاسکتا ہے اور مٹی کی مضبوطی کیلئے اسکی ٹیسٹنگ لازمی ہے۔لیکن تعمیراتی ایجنسی نے ان دو مقامات سے میٹرئیل نہیں نکالا بلکہ دوسرے سال 2023میںجنگل کے اندر کمپارٹمنٹ نمبر 26/راجواڑ میں ایک جگہ اونچی پہاڑی کی بلاسٹنگ کی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کمپارٹمنٹ نمبر 25 راجواڑمیں بھی اسی طرح کی غیر قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی اور ایک پہاڑی کی بلاسٹنگ کر کے مٹی اور بجری نکالی گئی۔ اس غیر قانونی کارروائی پر محکمہ جنگلات کی جانب سے پولیس سٹیشن ہندوارہ میںایف آئی آر نمبر 239 بتاریخ25اکتوبر 2023درج کیا گیا جس میں تعمیراتی ایجنسی کے ٹھیکیدار اور Poclain مشین ڈرائیور کو ملوث قرار دیا گیا۔ان دونوں جگہوں پر بغیر اجازت غیر قانونی طور پر ارتھ کٹنگ کے دوران درختوں کو ہوئے نقصان کے بارے میں بھی تفصیلات درج ہیں۔خط میں مزید کہا گیا ہے’’سڑک کی تعمیر کے دوران بنگس میں بلاسٹنگ سائٹ کے قریب دیودار کے درختوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ بلاسٹنگ کے ذریعے بڑے پیمانے پر خاک بجری اور دیگر درکار میٹرئیل کو نکالا گیا جو 36کلو میٹر سڑک کی تعمیر کی بنیاد بنا۔جب تعمیراتی ایجنسی کی غیر قانونی کارروائی کیخلاف کیس درج کیا گیا تو آگے کا کام جاری رکھتے ہوئے محکمہ آر اینڈ بی نے جیالوجی اینڈ مائننگ ڈیپارٹمنٹ کو ایک خط کے ذریعے از خود باکھی ہاکر زچلڈارہ نالہ کے ایک مقام دھوبی گھاٹ کی نشاندہی ، جو دو اہم پلوںسلطان پورہ پل اورزچلڈارہ برج ستہ کجی روڑ کی درمیانی جگہ ہے جس کی ایک دوسرے سے دوری محض 250میٹر ہوگی۔12دسمبر 2023کومحکمہ آر اینڈ بی نے ایک خط محکمہ جیالوجی اینڈ مائننگ کو بھیجا کہ محکمہ فلڈ کنٹرول ڈویژن نے دھوبی گھاٹ کے مقام پرنالہ ٹالری میں میٹرئیل کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔نالہ سے خاک بجری اور دیگر میٹرئیل نکالنے کیلئے محکمہ آر اینڈ بی کو جو اجازت دی گئی اس میں مرکزی قانون کی اس شق سے فائدہ اٹھایا گیا ، جومارچ 2020میں متعارف کیا گیاجس میں سیلاب سے بچائو،اور روک تھام کی خاطر ندی نالوں اور دریائوں سے جمع شدہ سلٹ نکالنے کیلئے بغیر مشین کے ڈریجنگ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ محکمہ آر اینڈ بی نے نالے سے 4992میٹرخاک بجری اور دیگر میٹرئیل نکالنے کی اجازت مانگی تھی جو کہ غیر قانونی ہے لیکن محکمہ جیالوجی اینڈ مائننگ نے اپنی چھٹی بتاریخ26دسمبر 2023میں مطلع کیا تھا کہ نالے میں صرف ڈریجنگ اور جمع شدہ مٹی ( ڈی سلٹنگ) نکالنے کی اجازت ہے اور اسکے لئے1لاکھ 65ہزار 485روپے جمع کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس جگہ محکمہ جیالوجی اینڈ مائننگ نے اسکی اجازت دی، وہ دو بڑے پلوں کی درمیانی جگہ ہے، جس میں کوئی ڈی سلٹنگ یا ڈریجنگ کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہے۔ اسکے برعکس ڈی سلٹنگ کے نام پر بڑے پیمانے پر دریائی تہہ سے خاک بجری بڑی مشینوں کے ذریعے نکالی گئی اور یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ یہ بات اہم ہے کہ پولیوشن کنٹرول کمیٹی کی جانب سے ایسی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے۔اس ننگے لوٹ کیخلاف مقامی لوگوں اور سماجی کارکنوں نے مقامی پولیس کو مطلع کیا اور اسکے خلاف احتجاج بھی کیا۔اسکے بعد ایک دن کیلئے عوامی دبائو دیکھتے ہوئے کام بن کیا گیا لیکن دوسرے روز تحصیلدار زچلڈارہ جائے وقوع پر پہنچ گئے اور کام دوبارہ شروع کروایا۔اس لوٹ کیخلاف سرکاری محکموں کی معنی خیز خاموشی سے ایک خوبصورت علاقے کو تباہ کرنے کی مجرمانہ سازش کو کامیاب بنایا گیا۔محکمہ آر اینڈ بی نے یہاں ہی بس نہیں کیا بلکہ کمپارٹمنٹ نمبر 2 بمقام ناگرا نار میں بہت زیادہ ارتھ کٹنگ کی گئی جس کیخلاف بھی شکایت درج کی گئی لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔اس غیر قانونی کارروائی کیخلاف محکمہ آر اینڈ بی کیخلاف سرکاری طور پر کئی خط پولیس کو بھیجے گئے لیکن اگست 2025تک کوئی کیس درج نہیں کیا گیا حالانکہ اس ضمن میں باضابطہ طور پر سرکاری خط و کتابت ہوئی ہے۔حتیٰ کہ ایس ایس پی کو بھی مطلع کیا گیا ہے۔
سرکاری خط و کتابت
ہندوارہ کے معروف آر ٹی آئی کارکن راسخ رسول کی جانب سے بنگس وادی میں گلمرگ کی طرز پر ٹورازم کو فروغ دینے کے نام پر جو 36کلو میٹر روڑ بنایا گیا ہے،اسکے متعلق ایک آر ٹی آئی کے ذریعے جو تفصیلات سرکاری محکموں کے ذریعے دی گئی ہیں وہ چونکا دینے والی ہیں۔کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود سرکاری دستاویزات میں واضح طور پر غیر قانونی کان کنی، فارسٹ ایکٹ کی خلاف ورزی،جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جنگلاتی علاقے پہاڑیوں کی بلاسٹنگ ،بڑے پیمانے پر مٹی، بجری اور دیگر میٹرئیل نکالنے کیلئے بڑے مشینوں کا استعمال کرکے سبھی متعلقہ ذمہ دار سرکاری محکموں نے مجرمانہ چشم پوشی کی اور بڑے پیمانے پر لوٹ کو کھلی چھوٹ دی۔اس لوٹ کو بچانے کیلئے بالآخر یہ کیس قومی گرین ٹریبونل کے پاس پہنچ گیا، جہاں اسکی شنوائی متاتر طور پر ہورہی ہے۔