قمر جہاں اور چمن آرا گہری سہیلیاں تھیں۔دونوں نے ایک ساتھ میڈیکل سبجیکٹ میں اچھے نمبرات میں گریجویشن کی تھی۔قمر جہاں زیادہ خوبصورت تھی لیکن اس کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا جب کہ چمن آرا امیر ماں باپ کی بیٹی تھی۔اس کا باپ ایک سٹیل فیکٹری کا مالک تھا۔دو بھائیوں کی وہ اکلوتی بہن تھی۔بڑی نٹ کھٹ قسم کی۔ مزاج میں شوخی اور نزاکت ونفاست کی امنگ اسے زندگی میں اپنا اور اپنے والدین کا نام روشن کرنے پر آمادہ کرتی رہتی۔قمر جہاں تو چاہتی تھی کہ وہ آگے پڑھے لیکن فرقان نام کے ایک لڑکے نے اسے اپنی محبت میں کچھ اس طرح گرفتار کر لیا کہ وہ اسی کے خوابوں اور خیالوں میں رہنے لگی۔فرقان پولیس محکمے میں سپاہی تھا۔ اسکی شکل وصورت کسی حد تک اچھی تھی۔جب پیار ومحبت نے ان دونوں کے دلوں میں اضطرابی کیفیت پیدا کردی تو دونوں کے والدین اس بات پہ راضی ہوگئے کہ فرقان اور قمر جہاں کو اذدواجی رشتے کی صورت میں پا بہ زنجیر کردیا جائے۔چناں چہ ایسا ہی کیا گیا۔لفظ ’شادی ‘ہرکسی کو شاداں کردیتا ہے۔قمر جہاں اور فرقان دونوں شادی کے دن خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہے تھے۔قمر جہاں کی سکھی سہیلیاں مہندی رات کو اسکے گھر پہ آئی تھیں۔انھوں نے ڈھولکی بجائی تھی؛گیت گائے تھے۔قمر جہاں سے ہنسی مذاق میں باتیں کی تھیں۔مہندی لگانے والے آرٹسٹ نے اسکے ہاتھوں اور کلائیوں پہ بڑی خوبصورت چترکاری کی تھی ۔دوسری جانب ویڈیو بنانے والے اور کیمرہ مین کھڑے اپنا کام کر رہے تھے،ان کے علاوہ قمر جہاں کی سہیلیاں اور اسکے خاندان کے لوگ اپنے اپنے رنگین موبائل فون سیٹوں سے ان حسیں یادگاری لمحوں کو مقید کررہے تھے۔دوسرے دن برات آئی تھی۔گرین پیلس کافی سجا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔برات میں کل ساٹھ آدمی تھے۔دلہے راجہ فرقان کی گاڑی طرح طرح کے پھولوں سے آراستہ کی گئی تھی۔جامع مسجد کے امام صاحب نے نکاح خوانی سے پہلے اذدواجی زندگی پہ لیکچر دیا تھا۔ایک آدمی کو وکیل اوردو آدمیوں کو گواہ بناکر قمر جہاں کے باپ سے اجازت لے کر اسکے پاس بھیجا تھا۔حق مہر معجل وغیر معجل کا ذکر کیا تھا اور پھر نکاح پڑھا تھا۔اسکے بعد براتی کھانے پہ ٹوٹ پڑے تھے۔قمر جہاں دلہن روپ میں اور زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔شادی میں موجود سب خواتین کی نگاہیں اس پہ مرکوز تھیں۔ پھر کچھ ہی وقت کے بعد وہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں سے گلے مل کے روئی تھی ۔دیکھتے دیکھتے وہ آنکھوں میں اشک لیے اپنے شریک زندگی فرقان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔اس کی زندگی کا ایک اہم دن غم وخوشی کے ساتھ بیت گیا تھا۔بزرگوں کا قول ہے کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔قانون فطرت کے مطابق انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے پیارے والدین،بھائی بہنوں اور گھر آنگن کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ایک نئے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔سب کو خوش رکھنے کی ریہرسل کرتےکرتے وہ بلآخر تھک ہار جاتی ہیں۔
قمر جہاں اپنے شریک حیات کے ساتھ اب ایک نئی زندگی میں داخل ہوگئی تھی۔کچھ دن گھر پہ رہنے کے بعد قمر جہاں اور فرقان ہماچل گھومنے چلے گئے تھے۔شملہ؛کلو؛چیل؛قفری؛نارکنڈ؛ہیم کنڈ؛ دھرم شالہ اور ملوٹ گنج جیسے دلکش اور روح پرور مقامات نے تصویروں کی صورت میں ان کی لو میریج کی گواہی دی تھی۔نارکنڈ میں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے قمر جہاں نے اپنے رفیق حیات فرقان کی طرف مسکراتے ہوئے کہا تھا
"محبت کی راہوں میں چلنا سنبھل کے
یہاں جو بھی آیا گیا ہاتھ مل کے"
فرقان نے دعائیہ انداز میں کہا تھا"خدا کرے ہمارا یہ سلسلئہ پیار ومحبت کبھی ختم نہ ہو"
قمر جہاں نے کہا تھا"آمین"
ہماچل پردیش سے واپس آنے کے بعد فرقان ڈیوٹی پہ حاضر ہوگیا تھا۔اس کی ڈیوٹی گھرسے دور تھی ۔قمرجہاں گھر میں اپنے سسر؛ساس اور دو کنواری نندوں کے ساتھ رہ گئی تھی۔جب وہ اپنے سرتاج کے بغیر اداس ہوجاتی تو فورا"اس کے ساتھ موبائل فون پہ باتیں کرتی۔دونوں کی زندگی ایک نئی ڈگر پہ آگئی تھی۔فرقان،قمر جہاں کا دل بہلانے اور اس کےاحساس تنہائی کو دور کرنے کے لیے فیس بک پہ دلچسپ لطیفے اور تصویریں ارسال کرتا۔دونوں کو اس بات کا حیرت انگیز احساس ہورہا تھا کہ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی میں کتنا تفاوت ہے۔دونوں کے ہاتھ سے خوبصورت رنگین زندگی پھسلتی جارہی تھی۔گردش روزوشب میں اب ان کی شادی کو ایک سال ہوگیا تھا۔قمر جہاں ایک بچی کی ماں بن چکی تھی۔گھر گرہستی کیا ہوتی ہے اور شادی کے بعد میاں بیوی کی ذمہ داریاں
کہاں کہاں سے سر نکالنے لگتی ہیں ۔اس بات کا اسے پتہ لگنے لگا تھا۔فرقان کے دل میں قمرجہاں کے لیے وہ پہلی سی محبت نہیں رہی تھی ۔وہ اب کبھی کبھی اسے فون پہ باتیں کرتا تھا۔ایک روز قمر جہاں نے پولیس کی وردی میں فیس بک پہ اپنے شریک زندگی کے ساتھ ایک لڑکی کو کندھے سے کندھا ملائے کھڑے دیکھا تو اسکی نفسیاتی دنیا میں زلزلہ سا آگیا۔آج وہ شادی کے بعد پہلی بار یہ کیا دیکھ رہی ہے۔غم و غصے سے وہ لال پیلی ہوگئی۔ اس نے
فرقان کا موبائل نمبر ڈائل کیا۔تین کالیں کرنے کے بعد بھی جب فرقان نے فون نہیں اٹھایا تو وہ اور زیادہ تشویش میں پڑگئی۔اس نے چوتھی مرتبہ پھر نمبر ملایا تو آگے سے فرقان نے بڑے نرم لہجے میں ایک ہی سانس میں کہا
"ہیلو؛ کہیے کیسی ہیں۔کیا حال ہے؛ ننھی کیسی ہیں؟"
قمر جہاں نے کرخت لہجے میں جواب دیا
"میں ٹھیک ہوں۔سب ٹھیک ہیں۔لیکن آپ ٹھیک نہیں ہیں"
فرقان نے حیرت سے پوچھا
"کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں"
قمرجہاں بولی
"فیس بک پہ آپ کے ساتھ وہ لڑکی کون ہے؟"
فرقان نے ہنستے ہوئے کہا
"اچھا یہ بات ہے۔ اسی لیے آج تم مجھ سے کچھ روکھے پن میں بات کررہی ہو۔پڑھی لکھی ہو۔اس سائنس اور تکنالوجی کے دور کا آدمی کہاں سے کہاں جاپہنچا اور تم ہو کہ بس وہی دقیانوسی باتیں کر رہی ہو۔وہ لڑکی میرے ساتھ سروس کرتی ہے۔پھر کیا ہوا اگر اس نے میرے ساتھ فوٹو کھچوالیا۔اپنی سوچ کا دائرہ ذرا وسیع رکھو۔ان معمولی باتوں پہ دھیان نہ دیاکرو"
قمر جہاں نے کہا
"میری سوچ کا دائرہ وسیع ہے۔آپ کی سوچ کا دائرہ تنگ ہے۔وہ لڑکی آپ کے ساتھ سروس کرتی ہے ٹھیک ہے،لیکن فیس بک پہ اسکے ساتھ آپ کا فوٹو آپ کو زیبا نہیں دیتا ہے۔لہذا دوبارہ آپ کی اس طرح کی یہ نازیبا حرکت میں برداشت نہیں کروں گی"
فرقان نے غصے سے جواب دیا
"تمہارا دماغ خراب ہورہا ہے"یہ کہتے ہوئے اس نے فون کاٹ دیا۔قمر جہاں کے دل میں دکھ کی گھٹا سی چھا گئی اور آنکھوں میں آنسو امڈآئے۔اتنے میں اسکی بچی نیند سے بیدار ہوئی اور رونے لگی۔اس نے بچی کو آغوش میں لیا اور دودھ پلانے لگی۔پھر جب فرقان گھرآیا تو دونوں میں خوب تکرار ہوئی۔اذدواجی رشتہ داغدار ہونے لگا۔فرقان ضدی قسم کا آدمی تھا۔اس نے کچھ عرصے کے بعد پولیس والی لڑکی کے ساتھ فوٹو کھچواکر دوبارہ فیس بک پہ ڈالا۔اب کی بار وہ پولیس وردی میں نہیں تھی۔اسکے بعد قمرجہاں اور فرقان کے درمیان اس قدر اختلافات بڑھے کہ دوسال دو ماہ کے بعد قمرجہاں کو فرقان نے طلاق دےدی اور اس نے اسی پولیس والی لڑکی کے ساتھ شادی کرلی۔قمر جہاں اپنی معصوم بچی کو ساتھ لے کر اپنے والدین کے پاس چلی آئی۔ایک زندہ لاش کی مانند۔
قمر جہاں کی سہیلی چمن آرا ماحولیاتی سائنس میں ایم ایس سی کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک کالج میں لیکچر کی پوسٹ پہ جوائن کرچکی تھی۔ اسے اپنے سبجیکٹ پہ کافی عبور حاصل تھا۔ تحریری؛ تقریری اور تخلیقی صلاحیتوں کی حامل تھی۔اپنے کالج کے طلبہ وطالبات ؛ اپنے ہم پیشہ ساتھیوں اور پرنسپل صاحب کی نظر میں نہایت ذہین اور قابل احترام سمجھی جاتی تھی اور پھر جب ماحولیاتی سائنس کے سلسلے میں قومی سطح کی ایک کانفرنس میں چمن آرا کو مدعو کیا گیا تو اسکی ذہانت کا جوہر کھل کے سامنے آگیا تھا۔اسکی خوبصورت آواز، اسکی علمی آگہی اور اسکی باڈی لینگویج نے کانفرنس ہال میں بیٹھی تمام اہم علمی وادبی شخصیات کو بہت متاثر کیا تھا۔ان اہم شخصیات میں منور احمد ڈائریکٹر محکمہ مچھلی پالن بھی موجود تھے۔وہ مادرذاد اندھے تھے۔ لیکن بہت زیادہ حسین اور ذہین تھے۔ ان کا ہاتھ پکڑنے کے لیے ہر وقت ایک آدمی ان کے ساتھ رہتا تھا۔جب چمن آرا اپنا مقالہ پڑھ کر واپس اپنی نشست پہ آئی تو منور احمد نے اسے اپنے قریب بلایا اور کہنے لگے
"واہ کیا خوب مقالہ پڑھا آپ نے۔آپ داد وتحسین کی مستحق ہیں۔قابل ستائش ہیں۔آپ کی محنت ولگن اور علمی آگہی پہ آپ کو جتنی زیادہ داد دی جائے کم ہے"
"شکریہ سر۔میں نے بھی آپ کا مقالہ بہت پسند کیا۔ویسے میں نے سر آپ کو ٹیلی ویژن پہ کئی بار دیکھا اور سنا ہے"
منور احمد نے کہا" آئیے یہاں بیٹھ جائیے" انھوں نے اپنے دائیں طرف خالی پڑی کرسی کی طرف ہاتھ کے اشارے سے چمن آرا کو بیٹھنے کو کہا۔چمن آرا بلا جھجک اس پہ بیٹھ گئی۔پھر منور احمد نے چمن آرا سے پوچھا
"آپ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ"؟
"سر میری ابھی شادی نہیں ہوئی ہے"
منور احمد نے بلا کسی ڈروخوف کے کہہ دیا
"ہم بھی ابھی کنوارے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ہماری زندگی میں آئیں"
چمن آرا؛منور احمد ڈائریکٹر محکمئہ مچھلی پالن کی باتیں سن کر ہکا بکا رہ گئی۔شرم کے مارے چہرہ لال ہوگیا۔پیشانی پہ پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔وہ بولی
"سر میرے والدین حیات ہیں۔میں ان کی مرضی اور مشورے کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں لیتی ہوں"
منور احمد نے کہا
"اپنے والدین سے مشورہ کیجیے اور مجھے دس دن کے اندر بتا دیجیے اور یہ لیجے میرا ایڈریس کارڈ۔اس پہ میرا موبائل نمبر بھی درج ہے"
چمن آرا جب اپنے گھر پہنچی تو اس نے سب سے پہلے اپنی ماں کو منور احمد کی بات روتے ہوئے سنائی، پھر باپ اور بھائیوں سے یہ بات چھیڑی تو سب حیرت میں پڑگئے۔اس کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ اس کے والدین اور بھائی منور احمد جیسے مادر زاد اندھے کے ساتھ شادی کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے۔لیکن چمن آرا کی حیرت کی کوئی انتہا اس وقت نہیں رہی جب اسکے باپ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا"میری پیاری بیٹی،منور احمد ڈائریکٹر نے اگر تم سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے توتمہیں انکار نہیں کرنا چاہیئے۔میں اس بات پہ بہت خوش ہورہا ہوں کیونکہ ایک تو وہ ڈائریکٹر ہیں اور دوسرے وہ تمہارے با وفا شوہر ثابت ہوں گے کیونکہ وہ اندھے ہیں۔انھوں نے تمہیں چاہا ہے۔پسند کیا ہے اور جو بات ان کے دل میں تھی انھوں نے بڑی نیک نیتی اور خلوص قلبی کے ساتھ تم سے اس کا اظہار کیا ہے اور پھر تم یہ بھی تو جانتی ہو کہ قمر جہاں کے شوہر فرقان نے چشم بینا ہونے کے باوجود اسکے ساتھ کتنا بدترین سلوک کیا ہے"
چمن آرا کے دل میں اپنے باپ کی باتیں گھر کر گئیں۔وہ خوش ہوگئی۔اور منور احمد کے ساتھ شادی کرنے پر راضی ہوگئی۔منور احمد کو گھر پر بلایا گیا۔سب نے انھیں دیکھا تو بہت پسند کیا ۔ان کی صورت وسیرت دیکھ کے چمن آرا کے والدین اور دونوں بھائی بہت خوش ہوئے۔چمن آرا کو مبارک باددی اور شادی کی تاریخ مقرر کردی۔
چمن آرا ساون کے مہینے میں دلہن بنی تھی۔اسکی تمام سہیلیاں اسکی شادی میں آئی تھیں۔خوشنما پیلس میں شادی کی تقریب تھی۔ڈائریکٹر منور احمد کی برات میں ایک سو دس آدمی تھے ۔وہ بہت خوش لگ رہے تھے۔ان کے دل کی مراد آج پوری ہوئی تھی۔ان کی برات میں زیادہ تر بڑے عہدوں کے لوگ تھے۔نکاح خوانی اور کھانے پینے سے جب تمام لوگ فارغ ہوئے تو چمن آرا کے والدین ،اسکے بھائی، خاندان اور رشتہ داری کے لوگ اسکے پاس آئے۔ وداعی کا وقت آگیا تھا،اسکی سہیلیوں نے اسے چاروں طرف گھیر رکھا تھا۔وہ سب سے پہلے اپنی ماں کے گلے لگ کے رونے لگی۔پھر باپ اور بھائیوں کے گلے لگ کے روئی۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے آنسو بھری ہوں یہ جیون کی راہیں۔جب اللہ کانام لے کر چمن آرا اپنے شریک زندگی کی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تو دلہے راجہ منور احمد بھی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے ۔جب چمن آرا کی سہلیوں کی نظر دلہے پہ پڑی تو ایک آدمی دلہے کا ہاتھ پکڑے انھیں گاڑی میں بٹھانے لے جارہا تھا۔چمن آرا کی سہیلیاں یہ دیکھ کے دنگ رہ گئیں۔تب انھیں یہ معلوم ہوا کہ منور احمد اندھے ہیں۔وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انھیں دیکھ دیکھ کے سرگوشیاں کرنے لگیں۔ان کے چہروں پہ مایوسی کے آثار نظر رہے تھے۔لیکن چمن آرا بہت خوش تھی۔جب دلہا اور دلہن گاڑی میں ایک ساتھ بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کردی اور جان بوجھ کر یہ گانا لگایا
"میں جس دن بھلادوں تیرا پیار دل سے وہ دن آخری ہو میری زندگی کا
یہ آنکھیں اسی رات ہوجائیں اندھی جو تیرے سوا دیکھیں سپنا کسی کا"
چمن آرا گیت کی دھن پہ سر ہلانے لگی اور اپنے رفق زندگی کی طرف دیکھ کے مسکرانے لگی*
Monile. 09419336120
Email. [email protected]